تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ہند ۔ سعودی عرب تعلقات
وزیر اعظم نریندرمودی سعودی عرب کا دو روزہ دورہ مکمل کرچکے ہیں ۔ مودی ہفتہ کو سعودی عرب پہونچے تھے اور اتوار کو ان کی سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے تفصیلی بات چیت ہوئی ۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کو اس دورہ سے نئی جہت ملنے کا امکان ہے ۔ ویسے تو سعودی عرب کے ساتھ ہندوستان کے روابط دیرینہ اور مستحکم ہیں۔ ہندوستان ہمیشہ سے سعودی عرب سے تعلقات کو اہمیت دیتا رہا ہے ۔ سعودی عرب ہندوستان کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ اس لحاظ سے ہندوستان اس ملک سے تعلقات کو اہمیت دیتا آ رہا ہے ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں ہندوستانی تارکین وطن کی کثیر تعداد برسر روزگار ہے ۔ ہندوستانی تارکین وطن یہاں ملازمتیں اور کاروبار کرتے ہوئے نہ صرف اپنے لئے روزگار حاصل کرتے ہیں بلکہ ہندوستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں بھی ان کا ناقابل فراموش رول ہے ۔ ہندوستان جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ‘ طاقتور اور با اثر ملک ہے اسی طرح سعودی عرب بھی خلیج کا سب سے بڑا ‘ طاقتور اور با اثر ملک ہے ۔ سارے خطہ پر سعودی عرب کا اپنا ایک مخصوص اثر ہے اور اسی اثر کے تحت وہ علاقہ کی سیاست اور تجارت پر غلبہ رکھتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے مابین ایک اور مشترکہ پہلو یہ بھی ہے کہ جس طرح ہندوستان جنوبی ایشیا میں امریکہ کا سب سے بڑا حلیف سمجھا جاتا ہے اسی طرح خلیج میں سعودی عرب بھی امریکہ کا سب سے بڑا حلیف ہے ۔ دونوں ملکوںکے مابین یہ یکسانیت انہیں ایک دوسرے سے اور بھی قریب کرتی ہے ۔ دونوںملکوں کے مابین تجارتی تعلقات اور تارکین وطن ایک مضبوط کڑی ہیں جو ایک دوسرے کو قریب سے قریب تر کرتے ہیں۔ تجارتی میدان میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں مزید استحکام پید ہوتا جا رہا ہے ۔ سعودی عرب کی کمپنیاں ہندوستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی دکھا رہی ہیں تو وہیں ہندوستانی کمپنیاں سعودی عرب میں تیل کے شعبہ میں سرگرم رول ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔توانائی کے شعبہ میں بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات اور بھی گہرے ہوتے جا رہے ہیں اور آئندہ دنوں میں تجارت کو مزید فروغ اور وسعت حاصل ہونے کے امکانات وسیع ہیں۔ ایسے میں مودی کا دورہ سعودی عرب اہمیت کا حامل ہے ۔
دونوں قائدین کے مابین بات چیت میں وسیع تر مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ خاص طور پر تیل کے شعبہ میں تعاون کے علاوہ دہشت گردی سے نمٹنے کے مسئلہ پر بھی بات چیت ہوئی ہے ۔ سعودی عرب نے آئی ایس آئی ایس سے نمٹنے کیلئے 34 مسلم ممالک کا ایک اتحاد بنالیا ہے اور اسے دوسرے مختلف ممالک کی حمایت و تائید بھی حاصل ہے ۔ ہندوستان بھی دہشت گردی سے نمٹنے کو تمام امور پر سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے ۔ اس شعبہ میں دونوں ملکوں کے مابین اچھے اشتراک کی امید پیدا ہو رہی ہے ۔ یہ پہلو حکومتی سطح پر ترجیح کا حامل ہے ۔ ساتھ ہی دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ تجارتی تعلقات اور عوام تا عوام رابطوں کو مزید مستحکم کرنے اور سعودی عرب میں ہندوستانی تارکین وطن اور ملازمین کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے بھی توجہ دیں۔ سعودی عرب کی معیشت میں جہاں ہندوستانی تارکین وطن اپنی شبانہ روز جدوجہد میں اہم رول ادا کر رہے ہیں وہیں وہ اپنے ملک کی معیشت میں بھی سرگرم رول ادا کر رہے ہیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کو اس مسئلہ پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان تارکین وطن کے مفادات کا تحفظ ہو ۔ تیل کا شعبہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ سعودی عرب ‘ ہندوستان کو دنیا میں سب سے زیادہ تیل فراہم کرنے والا ملک ہے ۔ ہندوستان اس کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور علاقہ پر سعودی عرب کے اثر سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے اس ملک کا دورہ کیا اور سعودی عرب نے بھی ہندوستان سے تعلقات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کا پرتپاک استقبال کیا ۔
دونوں ملک اپنے اپنے علاقہ کے طاقتور اور با اثر ممالک ہیں اور یہ یکسانیت انہیں عالمی امور میں مشترکہ موقف اختیار کرتے ہوئے با اثر موقف حاصل کرنے میںمعاون ثابت ہوسکتی ہے اور اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ دونوں ملکں کے مابین تجارتی شعبہ میں بھی تعاون میںاضافہ کی وسیع تر گنجائش ہے ۔ دونوںممالک کی کمپنیاں ایک دوسرے ممالک میںاپنے اپنے مہارت کے شعبوں میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں اور باہمی تجارت میں کئی ملین ڈالرس کا اضافہ ہوسکتا ہے ۔ یہ اضافہ جہاں دونوں ملکوں کی معیشتوں کو مستحکم کرنے کا باعث ہوگا وہیں اس سے دونوں ملکوں میںروزگار کے مواقع بہتر ہونگے اور تعلقات میں مزید بہتری پیدا ہوگی ۔ ایک دوسرے سے تعاون کے ذریعہ دونوں ممالک اپنے علاقوں میں اپنے اثر کو مزید وسعت دے سکتے ہیں اور ایسا کرنا دونوں ملکوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے ۔