ہند۔ پاک مذاکرات کی اُمید

دیکھ زنداں سے پرے رقص شرر جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
ہند۔ پاک مذاکرات کی اُمید
ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات کو تعطل کا شکار ہوئے ایک عرصہ ہوگیا ہے۔ فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور تنقیدوں کا سلسلہ چلتا رہا۔ گذشتہ سال دونوں ملکوں کے مابین بات چیت کے آغاز کی امید پیدا ہوگئی تھی تاہم عین وقت پر پاکستانی ہائی کمشنر متعینہ نئی دہلی نے کشمیری علیحدگی پسند قائدین سے دہلی میں ملاقات کی تھی جس کے بعد ہندوستان نے احتجاج کرتے ہوئے بات چیت کو منسوخ کردیا تھا۔ اب حالانکہ حالات ایسے تبدیل نہیں ہوئے ہیں کہ ہندوستان کی جانب سے بات چیت کے احیاء کی کوشش ہوتی۔ تاہم ایک بار پھر کرکٹ ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو فون کیا اور پھر ہندوستان نے اپنے معتمد خارجہ جئے شنکر کو اسلام آباد روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین حالیہ وقتوں میں سرحدات پر پیش آئے واقعات کے بعد ہندوستان سے اس طرح کے اقدام کی امید نہیں تھی تاہم ہندوستان نے آگے بڑھتے ہوئے تعلقات کو معمول پر لانے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تبدیلی کو مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجی امور سرتاج عزیز کا ادعا ہے کہ نریندر مودی کو صدر امریکہ بارک اوباما نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے یہ ادعا اس تناظر میں کیا ہے کہ گذشتہ مہینے بارک اوباما نے ہندوستان کا سہ روزہ دورہ کرتے ہوئے یوم جمہوریہ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ اس کے بعد پاکستان کے ساتھ بھی امریکہ تعلقات کو بنائے رکھنے کیلئے کوشش کرتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یہ پہلو بھی اہمیت کا حامل ہے کہ وزیر اعظم کی جماعت بی جے پی جموں و کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینے کی کوشش کر رہی ہے اور وہاں کے داخلی حالات اور عوامل ایسے ہیں کہ شائد حکومت کو بات چیت کے احیاء کیلئے پہل کرنا ضروری محسوس ہوا تھا۔ چاہے یہ بات چیت امریکہ کے صدر کی ایما پر شروع ہو رہی ہو یا پھر کشمیر کے داخلی حالات نے ایسا کرنے پر مجبور کردیا ہو یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک مثبت اور اچھی تبدیلی ہے اور اس پہل سے دونوں ملکوں کو فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات میں کشیدگی اور سرد مہری کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ ساتھ ہی وقفہ وقفہ سے اس تعطل اور جمود کو ختم کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن کوئی بھی کوشش اپنے منطقی انجام تک نہیں پہونچ سکی اور بات چیت کامیاب ہوتے ہوتے رہ گئی۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ چاہے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی جانب سے کی گئی کوشش ہو یا آگرہ میں ہوئی چوٹی کانفرنس ہو۔ ایسے مواقع آئے ضرور ہیں جب دونوں ملکوں کے مابین تعلقات بہتر ہوتے ہوتے رہ گئے تھے۔ تاہم کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوگیا کہ بات چیت پھر ناکام ہو گئی اور تعطل برقرار رہا۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے قریبی پڑوسی ہیں اور ان کے مابین تعلقات کا بہتر ہونا دونوں ہی ملکوں کیلئے فائدہ مند ہوسکتا ہے اور نہ صرف ان ممالک کیلئے بلکہ سارے جنوبی ایشیا ء کیلئے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری ایک مثبت تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اس حقیقت کو دونوں ملکوں کو سمجھنا چاہئے۔ جہاں ہندوستان وقفہ وقفہ سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے وہیں پاکستان کو بھی باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تعلقات کی اہمیت کو سمجھا نہیں جائیگا اس وقت تک وقفہ وقفہ سے ہونے والی بات چیت کو موثر اور کامیاب نہیں بنایا جاسکتا۔ ہر چند ماہ کے بعد ہونے والی پہل حسب روایت ناکامی کا منہ ہی دیکھتی رہے گی۔ ہندوستان ہو یا پاکستان ہو دونوں ہی ملکوں کو چاہئے کہ وہ دونوں ملکوں میں پائی جانے والی یکسانیت اور مشترکہ مفادات کو دیکھتے ہوئے تعلقات کو مستحکم اور موثر بنانے اور بہتر پڑوسیوں جیسے روابط بحال کرنے کی سمت کوششیں کریں۔ پاکستان کی جانب سے خاص طور پر زیادہ سنجیدگی اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے۔ جب تک پاکستان میں حکومت فوجی دبدبہ کو خاطر میں نہ لا کر سیاسی عزم اور حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کو آگے بڑھانے کا اٹل فیصلہ نہیں کرلیتا اس وقت تک کوئی بھی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نواز شریف نے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں گے۔ انہیں اس وعدہ کو بھی عملی شکل دینے کی ضرورت ہے تاکہ خود پاکستان کو ہندوستان سے کئی شعبوں میں مدد مل سکے اور وہ اپنے داخلی مسائل کو حل کرنے کی سمت توجہ دے سکے۔ پاکستان کو اس حقیقت کو قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات خود اس کے اپنے مفاد میں ہیں۔