کوئی بھی فیصلہ دینا ابھی درست نہیں
کہ واقعات ابھی کروٹیں بدلتے ہیں
ہندو توا کے بے قابو عناصر
ہندوستان میں تاریخ کے سیاسسی کرداروں کو مسخ کرکے پیش کرنے والے ہندو گروپس نے اپنے منصوبوں کو اندھادھند طریقہ سے روبہ عمل لانے کا مظاہرہ شروع کیا ہے۔ آر ایس ایس کی محاذی تنظیم ہندو دھرم جاگرن سمیتی نے مسلمانوں اور عیسائیوں کی گھر واپسی پروگرام کے ذریعہ لاکھوںمسلمانوں و عیسائیوں کو ہندو بنانے کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ یہ منصوبے اور پروگرام نریندر مودی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد پوری آزادی کے ساتھ منعقد ہورہے ہیں۔ آگرہ میں تبدیلی مذہب کے واقعہ کے بعد دھرم جاگرن سمیتی نے ورقئیے تقسیم کرکے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم کیلئے خطیر رقومات جمع کرنے کی اپیل کی ہے۔ مغربی یوپی میں ہندوتوا گروپ کی شاخ کی حیثیت سے کام کرنے والی اس تنظیم دھرم جاگرن سمیتی کے ارادوں کو سیکولر ہند اور جمہوری و دستوری اصولوں کے یکسر مغائر سمجھا جائے تو حکومت ہند کو ان کے خلاف کارروائی کرنے میں دیر نہیں ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوتوا کی طاقتوں نے سارے ملک کو اپنا ذہنی غلام بنانے کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کیا ہے۔ ہندو انتہاء پسند تنظیموں وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دھرم جاگرن منچ کی جانب سے منعقد کروائی جارہی خصوصی تقاریب کو روکنے اور ان کے قائدین کے خلاف کارروائی نہ کرنے سے ہندوستان کے حالات ابتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کی حرکتوں نے سیکولر ہندوستان کے سیاہ چہرے پر پڑے نام نہاد سیکولرازم کے نقاب کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اگرچیکہ اس مسئلہ پر زبردست ہنگامہ اور شوروغل برپا کیا گیا مگر اپوزیشن کو خاطر میں نہ لانے والی حکمران پارٹی نے ملک کے سیکولر اصولوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے کر ہندوتوا کے دیرینہ مقاصد پر عمل کرنے کی اپنی خاموشی مہر ثبت کردی ہے۔ ان تنظیموں کا یہ احمقانہ عمل مسلمانوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ہندوستان کا مسلمان یا کسی اور علاقہ کے مسلمان کے تبدیلی مذہب کی خبریں گمراہ کن سمجھی جائیں گی۔ ایک تاریخی سماجی جمہوریت میں چند طاقتیں اپنے ناپاک مقاصد کے ساتھ سرگرم ہوتی ہیں تو ملک کے قانون اور دستوری اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر برسراقتدار پارٹی کی خاموشی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ بی جے پی کے قائدین میں سے کوئی کہتا ہیکہ گیتا کو قومی کتاب قرار دیا جائے۔ کوئی کہتا ہیکہ اقلیتیں ان کے لئے مسئلہ ہیں اور اپنے طور پر ایسا مظاہرہ کررہے ہیں کہ ساری دنیا کی نظر میں ہندوستان کے یہ احمق لوگ اپنے ساتھ ہندوستان کو بدنام کررہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جارہا ہیکہ ہندوستان ہنوز پتھر کے دور میں سانس لے رہا ہے۔ مودی حکومت نے اچھی حکمرانی اور ترقی کے نام پر حلف لیا تھا۔ سارے ملک نے اس حکومت سے کئی امیدیں وابستہ کی تھیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ہندوستان کو تباہی کی طرف لے جانے کیلئے خفیہ منصوبوں پر عمل کیا جارہا ہے۔ آنے والے چند دنوں میں ملک کے اندر اس طرح کے حالات میں شدت پیدا ہوجائے تو پھر اس طرح کی سرگرمیاں اور انتشارپسندی کی پالیسیاں ہندوستانیوں کو تباہ کن حالات سے دوچار کردیں گی۔ اس ملک کی عدلیہ بیوروکریسی اور صاحب سمجھ سیاستدانوں کے حوالے سے یہ بات سختی سے نوٹ نہیں کی گئی تو جو خرابیاں پیدا ہوں گی اس کیلئے یہی ادارے اور لوگ ذمہ دار ہوں گے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ہی نوٹ لیا جائے تو حکومت، عدلیہ، پولیس اور قانون دانوں کو کارروائی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ ساری دنیا میں 10 ڈسمبر کوانسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور ہندوستان میں ہندوتوا کے لوگوں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں شروع کی ہیں تو ان کی یہ حرکتیں ساری دنیا خاص کر اقوام متحدہ کی توجہ کی محتاج ہیں۔ اس لئے عالمی سطح سے لیکر ہندوستان میں انسانی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ صرف ایک سیاسی نعرے میں تبدیل نہ کیا جائے تو ہندوستان کے مستقبل کے حالات ابتر ہونے سے بچ جائیں گے۔ انسانی دنیا میں خطرات کے بیج بونے والوں کو کھلی چھوٹ نہیں دی جانی چاہئے۔ نفرتوں کو ہوا دینا انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنانے ہندوتوا کی یہ ذہنی اختراع اپنے پیچھے بھیانک حالات چھوڑ جائیگی۔ نریندر مودی حکومت کی خاموشی سے ایسے کئی عناصر کی ہمت افزائی ہورہی ہے جو ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت و تعصب کا محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ حکومت کی لاپرواہی ہندوستانی جمہوری و سیکولر نظام کیلئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔
ہند۔ روس باہمی معاہدے اور امریکہ
صدر روس ولادیمیر پوٹین کے دورہ ہند اور وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات 20 معاہدوں پر باہمی دستخط کو دونوں ملکوں کی دیرینہ دوستی کا تسلسل قرار دیا جاتا ہے لیکن موجودہ عالمی پس منظر میں روس کے ساتھ کسی ملک کی دوستی مغربی طاقتوں خاص کر امریکہ کیلئے ایک ناپسندیدہ عمل متصور کیا جارہا ہے۔ یوکرین میں روس کے موقف کے خلاف عالمی برادری نے صدر ولادیمیر پوٹن کو یکا و تنہا کرتے ہوئے روس پر تحدیدات عائد کئے ہیں۔ ایسے میں ہندوستان کا روس کے ساتھ کئی معاہدوں کو قطعیت دینا امریکہ کے بشمول دیگر ملکوں کو ناراض کرنے والا عمل ہے تو وزیراعظم نریندر مودی اپنی خارجہ پالیسی کو کس حد تک مستحکم بنا سکیں گے یہ غور طلب امر ہے۔ روس کے ساتھ ہندوستان کے نیوکلیئر اور دفاعی معاہدے ایک معمول کے تعلقات کا حصہ ہیں لیکن روس ان دنوں امریکہ اور یوروپی یونین کی تحدیدات کا سامنا کررہا ہے تو یہ ممالک روس کے ساتھ دیر ملکوں کے روابط کو بھی اپنی آنکھ سے دیکھنا پسند کریں گے۔ امریکہ کو اس معاملے میں ہندوستان کے داخلی امور میں مداخلت کا کس حد تک اختیار حاصل ہے یہ غور کرنا چاہئے۔ آیا امریکہ ہندوستان کی داخلی پالیسیوں پر اپنی گرفت کا حق رکھتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ہندوستان ایک آزاد ملک ہے۔ اس کو کسی بھی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ روس نے اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے مغربی طاقتوں کی زیادتیوں کو نظرانداز کیا ہے۔ روس کے ساتھ ہندوستان کے ان معاہدوں کے باوجود امریکہ کے ساتھ کئے گئے ہندوستانی معاہدوں کے مقابل ٹھیک ہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ہند ۔ روس کے درمیان بھی معاشی تعلقات ماضی کی طرح مضبوط و مستحکم نہیں رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے میک ان انڈیا کی پالیسی کے تحت روس کے ساتھ 20 معاہدوں پر دستخط کئے ہیں تو یہ دونوں جانب کی معیشت کو فروع دینے میں معاون ہوں گے۔ روس نے اپنے مشترکہ ڈیفنس پراجکٹس کو بھی شروع کرنے سے اتفاق کیا ہے اور ہندوستان میں روسی عصری ہیلی کاپٹرس کی تیاری ہوگی تو اس سے دیگر ملکوں کو بھی ہندوستان میں اپنی اشیاء کی مینوفکچرنگ حوصلہ افزائی ہوگی۔ آج کی دنیا میں ایک متحرک معاشی طاقت والے ملک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا ہی ایک مضبوط حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔