ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہندو تنظیموں کی سرگرمیاں
ہندوستان بھر میں ہندو تنظیموں کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جو واقعات مسلسل پیش آ رہے ہیں ان سے یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ تنظیمیں اپنے طور پر متوازی حکومت چلا رہی ہیںاور نفاذ قانون کی ذمہ داری ان ہی تنظیموں نے اپنے طور پر اپنے ہاتھ میں لے لی ہے ۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے اور حکومت بھی ایسا لگتا ہے کہ خاموشی کے ساتھ ان تنظیموںکی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں گجرات میں دلت نوجوانوں کو مردہ گائے کا چمڑا نکالنے کی کوشش کے نام پر غیر انسانی انداز میں مار پیٹ کی گئی اور انہیں ادھ موا کردیا گیا ۔ پھر اب مدھیہ پردیش میں دو مسلم خواتین پر بیف منتقل کرنے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے جس انداز سے مار پیٹ کی گئی ہے وہ بھی انتہائی افسوسناک ہے ۔ یہ سب کچھ فرقہ پرست تنظیموں کی غنڈہ گردی ہے اور یہ تاثر مل رہا ہے یہ تنظیمیں ہر گذرتے دن کے ساتھ اس احساس کا شکار ہو رہی ہیں کہ وہ ماورائے دستور اتھاریٹی بن گئی ہیں۔ انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ ان کی حرکتوں سے سماج میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا مل رہی ہے اور یہ کیفیت ملک کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔ ان تنظیموں نے قانون کو ہاتھ میں لینا شروع کردیا ہے اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ نفاذ قانون کی ذمہ داری بالواسطہ طور پر انہیں سونپ دی گئی ہے ۔ حکومت کی خاموشی اور کسی کارروائی سے گریز بھی یہی تاثر دے رہا ہے ۔ حکومت کی خاموشی و کارروائی سے گریز کی وجہ سے ان تنظیموں کو مزید حوصلے مل رہے ہیں۔ اس ملک میں یقینی طور پر کچھ قانون ہیں ۔ کچھ اصول ہیں اور ان قوانین پر عمل کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔ ملک کا قانون ہر ایک شہری کیلئے برابر ہے ۔ ہر ایک کو اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ کوئی بھی شہری ہو یا تنظیم ہو یا ادارہ ہو وہ قانون سے ماورا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے ۔ جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ خود قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو ایسے عناصر کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دوسروں کیلئے عبرت کا سامان ہوسکے ۔
چند ماہ قبل بیف کے مسئلہ پر جو سیاست کی گئی وہ ہندوستانی سیاست کی پستی کی علامت تھی ۔ ہندوستانی سیاست کیلئے کئی مسائل ایسے ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ ملک کو ترقی کی راہ پر لیجانے کیلئے پالیسیوں کی ضرورت ہے ۔ اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کیلئے عزم و حوصلے کے ساتھ بے تکان جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے مسائل پر کسی کی توجہ نہیں ہے اور توجہ ہے تو اس بات پر کہ کون کیا کھا رہا ہے ۔ کس کو کیا کھانا چاہئے ۔ کس کے فریج میں کونسا گوشت رکھا ہے ۔ کون بیف منتقل کر رہا ہے ۔ یقینی طور پر ملک کی ریاستوں میں یہ قانون ہے کہ بیف کا استعمال نہ کیا جائے نہ گائے ـذبح کی جائے ۔ اس قانون کی پابندی کی جانی چاہئے ۔ اس کے مقاصد پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اس قانون پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ لیکن قانون نے کسی بھی تنظیم کو یہ اجازت نہیں دی ہے اور نہ یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اس قانون پر عمل آوری کو یقینی بنائے ۔ اس کیلئے سرکاری نفاذ قانون کی ایجنسیاں ہیں ‘ حکومت ہے ‘ پولیس ہے ‘ عدالتیں ہیں جو یہ کام کرسکتی ہیں اور یہ کام انہیں کا ذمہ ہے ۔ کسی بھی خانگی فرد ‘ تنظیم یا ادارہ کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کرنے کا مجاز ہے ۔ اس کے باوجود سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں ہوں یا دوسری فرقہ پرست ایجنڈہ پر عمل کرنے والی تنظیمیںہوں وہ من مانی انداز میں مسلسل ایسا کر رہی ہیں اور حکومت اپنے طور پر خاموشی اختیار کر رہی ہے ۔ ایسی تنظیموں کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی جارہی ہے اور نہ ہی ان تنظیموں کو روکا جا رہا ہے ۔
دادری میں اخلاق کا قتل ہو یا پھر گجرات میں دلت نوجوانوں کو غیر انسانی مارپیٹ ہو یا کہ مدھیہ پردیش میں دو مسلم خواتین کو تہذیب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے زد و کوب کرنا ہو یہ سب کچھ ہندو تنظیموں کی کارستانیاں ہیں ۔ یہ تنظیمیں دھڑلے سے یہ کام کر رہی ہیں اور فخریہ انداز میں پیش بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس سے ملک کا ماحول پراگندہ ہو رہا ہے ۔ قانون شکنی کو روکنا سب کی ذمہ داری ہے لیکن کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی خلاف قانون کام کرنے والے کو سزا دینے کا حق نہ ملک کے دستور نے دیا ہے اور نہ قانون نے ۔ قانون نافذ کرنے کا کام سرکاری ایجنسیوں کا ہے ۔ جو لوگ سرکاری قوانین کے نام پر خود قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور غنڈہ گردی کر رہے ہیں ان کے خلاف حکومت کو اور خود نفاذ قانون کی ایجنسیوں کوسخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔