واشنگٹن 4 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ بارک اوباما نے آج وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی کی ’’دفتر شاہی میں تحریک‘‘ پیدا کرنے کی کوششوں پر اُنھیں مبارکباد پیش کی۔ ایک ماہ قبل انھوں نے وزیراعظم ہندوستان کو ’’عملی آدمی‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم اوباما نے کہاکہ یہ طویل مدتی پراجکٹ ہے اور کسی بھی شخص کو دیکھنا پڑے گا کہ وزیراعظم مودی اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ جہاں تک ہندوستان میں دفتر شاہی کو جھنجوڑ کر اُس میں تحریک پیدا کرنے کا سوال ہے، مجھے اِس ’’عملی آدمی‘‘ نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ وہ کاروباری طبقہ کی گول میز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے جس میں ملک کے اعلیٰ سطحی کارپوریٹ قائدین نے حصہ لیا تھا۔ اِس گول میز کانفرنس کا اہتمام امریکہ اور عالمی موجودہ معاشی حالات پر تبادلہ خیال کیلئے کیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ میانمار میں مشرقی ایشیاء چوٹی کانفرنس کے دوران علیحدہ طور پر اوباما کا مودی سے مختصر تبادلہ خیال ہوا تھا اور اُنھوں نے مودی کو ’’عملی آدمی‘‘ قرار دیا تھا۔ ایشیائے کوچ علاقہ کے 10 روزہ دورہ سے واپسی پر مودی نے اعلان کیاکہ نئی دہلی میں سالانہ یوم جمہوریہ پریڈ میں صدر امریکہ بارک اوباما کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ گول میز کانفرنس میں کاروباری طبقہ سے تبادلہ خیال کے دوران اوباما نے کہاکہ امریکہ گزشتہ 6 سال سے یوروپ، جاپان اور باقی ترقی یافتہ دنیا میں بحیثیت مجموعی زیادہ لوگوں کو دوبارہ کام پر لگا چکا ہے۔ اُبھرتے ہوئے بازاروں کا فروغ توقع سے کم تر ہے۔ بحیثیت مجموعی عالمی صورتحال یہ ہے کہ لوگ معاشی قیادت کے لئے امریکہ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ہمیں دیگر کچھ افراد کی ضرورت ہے تاکہ عالمی معیشت کو ہماری سفارتی پالیسیوں اور تبادلہ خیال کے ذریعہ کاروباری طبقہ کے حوصلے بلند کرسکیں۔ امریکہ ایک نمایاں معیشت ہے جو فی الحال مضبوط ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ یہی معاملہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ نہیں ہے۔ جاپان ایک ایسا طریقہ اختیار کررہا ہے جس نے کئی تجزیہ کاروں کو حیران کردیا ہے۔ وہ خود بھی وزیراعظم جاپان کے طریقہ کار پر حیرت زدہ ہیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ وہ موجودہ تبدیلی کو کہاں تک برقرار رکھ سکیں گے۔ اوباما نے نشاندہی کی کہ یوروپ میں عام طور پر یہ مباحث جاری ہیں کہ یوروپ میں کفایت شعاری کی پالیسیاں جنوبی ممالک میں کہاں تک کارآمد ثابت ہوسکیں گی۔ اگر آپ صداقت جاننا چاہتے ہیں تو اسپین اور فرانس کا جائزہ لیں۔ کچھ حد تک اٹلی کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ جنوب کے بیشتر بڑے ممالک کوئی نہ کوئی اصلاحی عمل میں ملوث ہیں۔ قبل ازیں اُنھوں نے کبھی اصلاحات نہیں کئے تھے۔ اُنھوں نے کہاکہ اِن ممالک میں کئی مسائل کی یکسوئی کے لئے اصلاحی کارروائیاں جاری ہیں۔ چین کے بارے میں اُنھوں نے کہاکہ یہ ملک اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کررہا ہے اور پالیسی کو درآمدات کے مطابق بنارہا ہے کیونکہ اندرون ملک چینی مصنوعات کی اتنی طلب نہیں ہے جتنی کہ بیرونی ممالک میں ہے۔