واشنگٹن ، یکم مئی (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ نے مسئلہ کشمیر پر کوئی بھی ثالثی کو خارج از امکان قرار دیا ہے تاوقتیکہ ہندوستان اس طرح کی تجویز کو مسترد کرتا رہے ، اور پاکستان سے کہا کہ سرکاری پالیسی کی حکمت کے طورپر عسکریت پسندی کی سرپرستی سے گریز اں رہے ۔ خصوصی امریکی نمائندہ برائے افغانستان اور پاکستان جیمس ڈابنس نے سرکاری پاکستانی ٹیلی ویژن کو بتایا کہ جب تک ہندوستان حقیقی ثالثی کو ناپسند کرتا رہے ، ہم اس ضمن میں خصوصیت کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ڈابنس نے جو حال میں پاکستان گئے تھے ، کہا کہ ہندوستان مسلسل تیسرے فریق کی ثالثی کا مخالف رہا ہے اور اُس کا استدلال ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے راست مذاکرات نا کہ کوئی تیسرے فریق کی شرکت کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ لہذا انھوں نے ثالثی کی بات ہمیشہ مسترد کی ہے ۔ اس دوران امریکی صدر براک اوباما نے امریکی کانگریس کے پیانل برائے مذہبی آزادی کی رپورٹ کے درمیان اعتراف کیا ہے کہ آج بھی جنوبی ایشیائی نژاد متعدد لوگ بالخصوص ہندو، مسلم اور سکھ برادریاں امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم کا شکار ہورہے ہیں ۔
اوباما نے ایشیائی ۔ امریکی شہریوں کے اس ملک کی سماجی و سیاسی ترقی میں گراں قدر رول کو تسلیم کیا اور کہا کہ معاشی طورپر بھی اُنھوں نے ملک کے فروغ میں حصہ ادا کیاہے۔ قبل ازیں کانگریسی پیانل جو نریندر مودی پر ویزا امتناع میں سرگرم رہا ہے ، کہا کہ ہندوستان میں کثیرمذہبی اور سیکولر جمہوریت کے باوجود اقلیتی برادریوں کو اپنے تحفظ اور اپنے لئے انصاف حاصل کرنے میں جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ اپنی تازہ رپورٹ میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے زور دیا کہ مودی پر ویزا امتناع جیسے اقدامات میں تواتر درکار ہے۔