باہمی تنازعات پر ہند ۔پاک مذاکرات کا مشورہ ، اسلامک اسٹیٹ کو امریکی تائید کی تردید
حیدرآباد ۔ 14۔ ستمبر (سیاست نیوز) امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات حالیہ عرصہ میں مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ دفاعی شعبہ کے علاوہ معاشی شعبہ میں دونوں ممالک نے باہمی تعاون کو فروغ دیا ہے جو دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے عہدیدار جیرڈ ایس کیپلان نے آج سیاست کو خصوصی انٹرویو میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ جیرڈ کیپلان لندن میں واقع امریکی سفارت خانہ کے ریجنل میڈیا ہب کے ڈائرکٹر اور عربی زبان کے ترجمان ہیں۔ ان کے ہمراہ انور حسن ساؤتھ ایشیاء میڈیا اسپیشلسٹ امریکی سفارتخانہ لندن موجود تھے۔ دونوں سفارتی عہدیداروں نے جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر سیاست سے ملاقات کی اور ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات اور امریکہ کے بارے میں خیالات جاننے کی کوشش کی ۔ جے ایس کیپلان نے اعتراف کیا کہ امریکہ بیک وقت ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ بہتر رشتے استوار کئے ہوئے ہے۔ انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فوجی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت کی اس کارروائی کی امریکہ تائید کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو امریکہ کی تائید حاصل ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دنیا سے دہشت گردی کا صفایا ہو اور عوام امن خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلہ میں پاکستان سے امریکہ کی بات چیت اکثر و بیشتر ہوتی ہے اور وہ کسی اور ملک میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کی تائید نہیں کرتا۔ ایک سوال کے جواب میں امریکی سفارتکار نے کشمیر کے پس منظر میں جاری کشیدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ علاقائی مسائل کی یکسوئی کیلئے ہندوستان اور پاکستان کو باہم بات چیت کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکہ دونوں ممالک کے امور میں مداخلت کا خواہاں نہیں ہے تاہم اگر دونوں ممالک چاہیں تو وہ مصالحت کا رول ادا کرسکتا ہے۔
کشمیر میں پاکستانی مداخلت اور پاکستان کے خلاف تحدیدات عائد کرنے سے امریکہ کے انکار کے بارے میں سوال پر جے ایس کیپلان نے کہا کہ امریکہ داخلی مسائل میں مداخلت کرنے اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے خلاف ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کی حالیہ جنگی مشقوں کے پس منظر میں پوچھے گئے سوال پر امریکی سفارتکار نے کہا کہ اس سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ تاہم انہوں نے دفاعی امور کے سلسلہ میں امریکی پالیسی پر مزید کچھ کہنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی آزادی کے مطالبہ کی امریکہ تائید نہیں کرے گا کیونکہ وہ ہر ایک ملک کی علاقائی سالمیت کے حق میں ہے ۔ بلوچستان چونکہ پاکستان کا حصہ ہے ، لہذا امریکہ اسی ملک میں برقراری کے حق میں ہے ۔ شام میں حالیہ جنگ بندی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امریکی عہدیدار نے کہا کہ امریکہ اور روس نے جانی نقصانات کم کرنے کیلئے جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ جنگ بندی پر کامیابی سے عمل کیا جائے گا اور ملک میں امن بحال ہوگا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ جنگ بندی کے باوجود بعض علاقوں میں خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں تشدد کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے اور امریکہ مزید بہتری کے حق میں ہے اور وہ بے قصور جانوں کے اتلاف کی ہرگز تائید نہیں کرسکتا۔ اسلامک اسٹیٹ کو امریکہ کی مدد کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے جے ایس کیپلان نے کہا کہ بعض گوشے یہ پروپگنڈہ کر رہے ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ دراصل امریکہ کی پیداوار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے 66 ممالک کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف امریکہ بلکہ فرانس ، بلجیم اور دیگر ممالک بھی دہشت گرد کارروائیوں کا شکار ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور یہ انسانیت کیلئے خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر روس تعاون کرے تو اسلامک اسٹیٹ کا صفایا کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکی صدر براک اوباما دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں تمام ممالک کے تعاون کے خواہاں ہیں۔ ایران کے ساتھ امریکی تعلقات میں حالیہ عرصہ میں تبدیلیوں کا اعتراف کرتے ہوئے امریکہ عہدیدار نے کہا کہ امریکی پالیسی میں بڑی حد تک تبدیلی آئی ہے اور مذاکرات کے ذریعہ ایران کو نیوکلیئر ہتھیار کی تیاری سے روک دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف علاقائی سالمیت کیلئے اہمیت کا حامل تھا ، بلکہ دنیا میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات کے احیاء میں مزید وقت لگ سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کئی مسائل ابھی بھی زیر تصفیہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی تحدیدات ابھی بھی برقرار ہے تاہم نیوکلیئر ہتھیاروں کی عدم تیاری کے فیصلے کے بعد بعض رعایتیں دی گئی ہیں۔ امریکی عہدیدار نے صدارتی انتخابات اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے معیشت پر پڑنے والے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے روزنامہ سیاست کی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کی ستائش کی ۔ خاص طور پر قرآن فہمی کیلئے شہر میں مراکز کے قیام کو منفرد اقدام قرار دیا ۔