ممبئی ، دہلی اور گوا میں ناکامی کے بعد حیدرآباد میں پلے بوائے کلب کا قیام تشویشناک،عریانیت و بے حیائی میں اضافہ اور نوجوانوں کے لیے بگاڑ
حیدرآباد ۔ 7 ۔ اگست (سیاست نیوز) کسی بھی معاشرہ میں تہذیبی بگاڑ کیلئے نوجوانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر نوجوان اپنی تہذیب و تمدن سے بے پرواہ آوارہ تہذیب کا حصہ بننے لگتے ہیں تو ان کی ایک نسل نہیں بلکہ آئندہ نسلوں تک اس کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ تہذیب کی تباہی نہ صرف اخلاقی گراوٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ اس تہذیبی گراوٹ کے سبب کئی مسائل بالخصوص عائلی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ہندوستانی تہذیب میں مذہبی عنصر شامل ہونے کے باعث ہندوستانی تہذیب کو ایک متمدن تہذیب تصور کیا جاتا ہے لیکن اس ہمہ مذہبی ملک میں موجود تہذیب پر مغربی یلغار کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر حیدرآباد کے نواحی علاقوں میں بہت جلد پلے بوائے کلب کا آغاز ہونے جارہا ہے۔ ’’پلے بوائے‘‘ کا نام سنتے ہی یہ بات تصور میں ابھر آتی ہے کہ یہ ایک ایسا نام ہے جس کے ساتھ عیاشی ، غیر اخلاقی سرگرمیاں اور بے حیائی جڑے ہوئے ہیں۔اب پلے بوائے کلب حیدرآباد میں کھلنے جارہا ہے لیکن کلب کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دیگر مقامات کی طرح یہاں کے پلے بوائے کلب میں برہنگی نہیں ہوگی اور ہندوستانی قوانین کے مطابق اس پر کنٹرول کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ممبئی سے تعلق رکھنے والے ایک مارواڑی تاجر نے حیدرآباد میں پلے بوائے کلب کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پلے بوائے کلب میں پلے بوائے نامی کلب چین کے تربیت یافتہ لڑکیاں بحیثیت ویٹریس خدمات انجام دے گی اور وہ خصوصی لباس زیب تن کئے ہوئے ہوں گی جو ہندوستانی پلے بوائے کلب کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں چلائے جانے والے پلے بوائے کلب میں برہنہ خواتین کے رقص کے علاوہ ویٹریس کی خدمات معمول کی بات ہے لیکن اس طرح کی سرگرمیوں کی کسی بھی متمدن معاشرہ میں اجازت حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود حیدرآباد میں پلے بوائے کلب کو سرکاری اجازت حاصل ہونے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔ پلے بوائے کلب انٹرپرائزس نے تین سال قبل جب ہندوستان میں قدم جمانے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا تو اسے ممبئی ، دہلی کے علاوہ گوا میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا چونکہ ان ریاستوں کی حکومتوں نے پلے بوائے انٹرپرائزس کو کسی قسم کی عریانیت کے فروغ کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ بہ حالات مجبوری گوا میں ایک کھلے مقام پر زیر سماں سن رائیز کلب کے نام سے پلے بوائے کلب نے اپنی کیفے کا آغاز کیا ہے اور اب حیدرآباد میں ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں پلے بوائے کلب کے آغاز کی افتتاحی تقریب منعقد ہونے جارہی ہے ۔ حیدرآباد کے نواحی علاقوں میں اس طرح کے کلب کے آ غاز سے نوجوانوں میں بگاڑ کے خدشات تو پیدا ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس طرح کے کلب کے آغاز سے عریانیت و بے حیائی کے فروغ کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ مارواڑی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کی جانب سے اس کلب کا حیدرآباد میں کھولا جانا مغربی تہذیب اور عریانیت کو فروغ دینے کے مماثل ہے۔ سرزمین ہند پر متمدن اور تہذیب کے گہوارہ تصور کئے جانے والے شہروں میں نمایاں شہر حیدرآباد میں اس طرح کے کلب کا آغاز مستقبل میں مزید بے حیائی و بے شرمی کا مظاہرہ کرنے والے کلبس کے آغاز کیلئے راہیں ہموار کرے گا۔ حیدرآباد کی تہذیب و تمدن کی حفاظت کے علاوہ نوجوانان حیدرآباد کو اخلاقی بگاڑ سے بچانے کیلئے فوری طور پر اقدامات کیلئے اس طرح کی تجارتی سرگرمیاں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔ کسی بھی شہر کے متعلق دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ شہر غیر اخلاقی سرگرمیوں سے پاک ہے لیکن جب حیدرآباد میں بے حیائی و بے غیرتی کے علاوہ بے شرمی و عریانیت کے فروغ کیلئے باضابطہ اجازت دی جانے لگے تو ایسی صورت میں ملک کی ہمہ جہت تہذیب کو مسمار کرنے کے علاوہ اس میں عریانیت و بے حیائی کی دراڑ پیدا کرنے کے مترادف ثابت ہوگا۔