ہندوستانی مسلم آبادی 2050ء تک انڈونیشیا سے بڑھ جائیگی

واشنگٹن /3 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان 2050ء تک مسلمانوں کی کثیر آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کو پیچھے چھوڑ دے گا، جبکہ ہندو دنیا کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہوں گے۔ امریکی دانشوروں کی نئی تحقیق کے بموجب پیو ریسرچ سنٹر نے مذہبی بنیادوں پر اندازے قائم کرتے ہوئے معلومات کا تجزیہ کل جاری کیا۔ مسلمانوں کو دنیا بھر میں مجموعی آبادی کے اعتبار سے تیز تر رفتار سے فروغ پذیر ظاہر کیا گیا ہے۔ ہندو اور عیسائی عالمگیر سطح پر آبادی کے فروغ کے مطابق ہوں گے۔ 2011ء میں پیو کے بموجب انڈونیشیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20 کروڑ 50 لاکھ اور ہندوستان میں 17 کروڑ 70 لاکھ تھی۔ آئندہ 35 تا 40 سال میں عیسائی وسیع ترین مذہبی گروپ کے مقام پر رہیں گے، لیکن اسلام دیگر بڑے مذاہب کی بہ نسبت تیز تر رفتار سے ترقی کرے گا۔ رپورٹ میں پیش قیاسی کی گئی ہے کہ 2050ء میں مسلمانوں کی آبادی دو ارب 80 کروڑ یعنی جملہ آبادی کا 30 فیصد، عیسائی دو ارب 90 کروڑ یعنی 31 فیصد ہوں گے۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔ 2010ء میں مسلمان ایک ارب 60 کروڑ اور عیسائی دو ارب 17 کروڑ تھے۔ مسلمان تقریباً عالمگیر سطح پر عیسائیوں کے مساوی ہوں گے۔ اگر موجودہ رجحان برقرار رہے تو اسلام 2070ء کے بعد دنیا کا مقبول ترین مذہب ہوگا۔

2050ء تک مسلمان یورپ کی آبادی کا 10 فیصد ہو جائیں گے۔ 2010ء کی بہ نسبت ان کی آبادی میں 5.9 فیصد اضافہ ہوگا۔ ہندو آبادی ایک اندازہ کے بموجب عالمگیر سطح پر 34 فیصد زیادہ ہوگی۔ ان کی جملہ تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے، جو 2050ء تک ایک رب 40 کروڑ ہو جائے گی۔ اس وقت تک ہندو آبادی کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے مقام پر ہوں گے۔ دنیا کی جملہ آبادی کا 14.9 فیصد ہوں گے۔ ایسے لوگ جو موجودہ طور پر کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں ہیں، دنیا کی جملہ آبادی کا تیسرا سب سے بڑا حصہ ہیں۔ اسی مدت میں یورپ میں ہندوؤں کی آبادی توقع ہے کہ تقریباً دوگنی ہو جائے گی۔ موجودہ آبادی 14 لاکھ یعنی یورپ کی جملہ آبادی کا 0.2 فیصد ہے۔ یہ 27 لاکھ یعنی 0.4 فیصد ہو جائیں گے۔ اس کی کلیدی وجہ نقل مقام ہوگی۔ رپورٹ کے بموجب شمالی امریکہ میں ہندو آبادی کا جتنا حصہ ہیں، امکان ہے کہ آئندہ دہائیوں میں تقریباً دوگنے ہوجائیں گے۔ 2010ء میں یہ شمالی امریکہ کی جملہ آبادی کا 0.7 فیصد تھے اور 2050ء میں 1.3 فیصد ہو جائیں گے۔ نقل مقام میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ نقل مقام کے بغیر اس علاقہ میں ہندوؤں کی آبادی جوں کی توں برقرار رہے گی۔