ہندوستانی قونصل خانہ پر حملہ

ہم شب و روز گِھرے رہتے ہیں افکار کے بیچ
زندہ درگور ہیں ہم اپنی ہی دیوار کے بیچ
ہندوستانی قونصل خانہ پر حملہ
افغانستان میں تعمیر نو کے لئے دیگر ملکوں کے علاوہ ہندوستان بھی اپنی سطح پر ہر ممکنہ بہترین کوشش کررہا ہے تاکہ جنگ زدہ اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرکے عوام کے لئے خوشحالی لائی جائے لیکن وقتاً فوقتاً شورشی حملوں نے افغان عوام کے ساتھ ساتھ بیرونی سفارت کاروں کی جان و مال کے لئے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ افغانستان کے صوبہ ہیرات میں ہندوستانی سفارت خانہ پر حملہ کو نامزد وزیراعظم نریندر مودی کے لئے بہت بڑا چیلنج قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ اُنھوں نے اپنی حکومت کی خارجہ پالیسیوں کو ایک منفرد سطح پر لے جانے کی پہل کی ہے۔ اس کے حصہ کے طور پر اُنھوں نے پیر کے دن وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لئے تمام اہم عالمی قائدین خاص کر سارک ملکوں کے سربراہوں کو دعوت دی ہے۔ حلف برداری تقریب میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی شرکت کی توثیق کے درمیان دہشت گردوں اور سخت گیر عناصر نے اس حملے کے ذریعہ دونوں ملکوں کو اشارہ دیا ہے تو یہ سنگین مسئلہ ہے۔ ہندوستانی سفارت خانہ کو نشانہ بنانے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ امن کے قیام کے لئے تمام کوششوں کو بروئے کار لانے میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس طرح کے حملوں سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کے آغاز سے قبل ہی چیلنج کھڑا کردینے والے حملے سے معاملہ سنگین نوعیت اختیار کرسکتا ہے۔ اس خطہ میں ایسے کئی عناصر ہیں جو ہند ۔ پاک کے درمیان تعلقات کو مستحکم ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہیرات میں ہندوستانی سفارت خانہ پر حملہ کرنے والا گروپ بھی انہی دہشت گرد تنظیموں کا ایک ٹولہ ہے۔ افغانستان میں بیرونی شہریوں کو نشانہ بنانا اس ٹولے کے لئے آسان ہے کیوں کہ یہ علاقہ غیر محفوظ ہے۔ 2008 ء میں بھی کابل میں ہندوستانی سفارت خانہ پر حملہ کرکے 58 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔

طالبان کے زوال کے بعد یہ سب سے بڑا خون ریز حملہ تھا جس میں 141 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس طرح کے خطرناک اور شدید حملے کے باوجود افغان سکیورٹی فورسیس اور ہندوستان نے کوئی سخت سکیورٹی انتظامات نہیں کئے تھے۔ 2008 ء کے بعد اکٹوبر 2009 ء کو بھی کابل میں ہندوستانی سفارت خانہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد جلال آباد میں اگسٹ 2013 ء کو بھی حملہ کرکے 12 افغان باشندوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔ افغانستان میں امدادی خدمات انجام دینے والے ہندوستانی ورکرس ان حملہ آوروں کے لئے آسان نشانہ بنتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں القاعدہ سربراہ کے قتل کے بعد بھی خطہ میں خون ریز کارروائیاں جاری ہیں تو یہ تشویشناک بات ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو کمزور کرنے کے لئے حکومت پاکستان نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھائے۔ حالیہ برسوں میں افغانستان میں پاکستان کے بعض انتہا پسند گروپ سرگرم ہیں۔ ہیرات کا یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب صدر افغانستان حامد کرزئی نے نریندر مودی کی دعوت پر ہندوستان کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ہندوستان کی نئی حکومت سے کسی بھی قسم کے روابط نہ رکھنے کے لئے دباؤ ڈالتے ہوئے افغانستان اور پاکستان کے سخت گیر عناصر خطہ کو خطرناک صورتحال سے دوچار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس ارادے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں ہندوستانی سفارت کار، قونصل خانے خطرے کے نشانہ پر ہیں تو ان تمام کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کئے جانے چاہئے، اس پر فی الفور غور کرنا چاہئے۔ اگرچیکہ صدر افغانستان حامد کرزئی نے نامزد وزیراعظم نریندر مودی اور سبکدوش ہونے والے وزیراعظم منموہن سنگھ سے بات چیت کرکے ہندوستانی سفارت خانوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کا تیقن دیا ہے۔ کسی بھی ملک میں بیرونی سفارت کاروں کو نشانہ بنانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا اور اس طرح کی کارروائیوں کو ہرگز منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ صدر افغانستان حامد کرزئی کے صدارتی دور کے آخری ایام ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ افغانستان کے روابط کو نقصان پہونچانے کی سازش کی جارہی ہے تو اس کو ناکام بنانے کی ہر حصے سے کوشش کی جانی چاہئے۔ امریکہ نے جب افغانستان میں حملے شروع کئے تھے اُس وقت اس نے اپنے ساتھ بھاری اسلحہ، گولہ بارود رکھے تھے۔ اب وہ واپس جارہا ہے تو افغان عوام کی سلامتی مقامی حکومت کے تفویض ہے۔ خون خرابے کو روکنے کے لئے افغانستان کی نئی حکومت اور ہندوستان کی نئی وزارت کو امن کے قیام کی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے خاتمہ کا مضبوط عزم ہونا چاہئے۔ دہشت گردی کے عذاب سے نکلنے کے لئے ہمہ جہتی اقدامات پر توجہ دی جائے۔ نریندر مودی کی نئی حکومت اور ان کی خارجہ پالیسیاں ہی یہ بتا سکیں گی کہ امن و امان کے لئے وہ کتنی معاون ہیں اور درپیش چیالنجس سے کس طرح نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ہندوستانی معیشت پر مودی کے اثرات
ہندوستانی عوام کو مرکز میں حکومتیں بدلنے، قیادت تبدیل ہونے سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ان دنوں جس لیڈر کی لہر چلائی گئی اس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کی مقبولیت کو آسمان تک پہونچایا گیا تھا۔ جب کوئی لیڈر اپنی حد سے آگے نکل جاتا ہے یا بے قابو ہوتا ہے تو ملک کے معاشی ڈھانچہ اور سماجی قوانین کو پیروں تلے روندتا ہے۔ اندرا گاندھی کو ایک وقت ایسی سطح تک پہونچادیا گیا تھا جہاں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ ان سے کوئی بھی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اب مودی بھی اسی ڈگر پر چل کر لیڈر کی تمام خصلتوں کا مظاہرہ کریں گے تو انھیں ووٹ دینے والوں کو کیا ملے گا۔ ان کی خرابیوں اور کوتاہیوں کے خلاف آیا کوئی آواز نہیں اُٹھا سکے گا۔ یہ سوال سب سے اہم ہے۔ حلف لینے سے قبل ہی اُنھوں نے بعض ایسے اشارے دیئے ہیں کہ ان کی حکومت میں وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے میڈیا نے اب تک جتنی بھی خبر گری یا خبر نگاری کی ہے اس سے یہ واضح ہورہا ہے کہ خود خبر نگار کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ گجرات میں ترقی کی اصل سطح کیا ہے۔ حقائق کا پتہ چلائے بغیر ہی جب پروپگنڈہ کے پیچھے بھاگنے کا رجحان چل پڑتا ہے تو اس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ نریندر مودی کے حلف لینے کے بعد سے ملک کی قسمت کی گھڑی چلنے لگے گی۔ یہ منحوس گھڑی ہوگی یا نیک شگون کی گھڑی ہوگی یہ تو عوام کے نصیب اور ان کے ووٹ کی قدر و قیمت پر منحصر ہے۔ فی الحال ملک کو معاشی سطح پر جن تباہ کن حالات سے گزرنا پڑرہا ہے اس کو روکنے کے لئے مودی کیا اقدامات کریں گے اور ان کی معاشی پالیسیاں کیسی ہوں گی یہ باقاعدہ حکومت کے کام کاج کے دنوں میں معلوم ہوگا۔ حکمرانی کے اُصولوں پر عمل کرنا ایک اچھے حکمراں کی نشانی ہوتی ہے۔ کانگریس کی قیادت نے اچھی حکمرانی کے پروپگنڈہ کے ذریعہ عوام کے حق میں سب سے بدترین حکومت چھوڑی تھی۔ برسوں سے خرابیوں کا خمیازہ بھگتنے کے باوجود عوام نے کانگریس کو منتخب کیا تھا کیوں کہ ان میں ایک اُمید اور آس بھی پائی جاتی تھی جب یہ آس ہی ٹوٹ گئی تو نریندر مودی جیسے قائد کو خود پر مسلط کرنے میں بھی کوئی ہوش سے کام نہ لیا۔ ماضی میں عوام کی سب سے زیادہ پسندیدہ پارٹی کانگریس کا حشر یہ ہوسکتا ہے تو مودی کے بارے میں رائے رکھنے والوں کو اندازہ ہے کہ ان کا مستقبل بھی کیسا ہوگا۔ اندرا گاندھی یا گاندھی خاندان کے مقابل نریندر مودی کا قد آنے والے دنوں میں عوام پر ظاہر ہونے لگے گا۔ ہندوستانی معیشت پر بھی مودی کی لہر کے اثرات منفی یا مثبت ہوں گے یہ قیاس طلب ہیں۔