جن کی اپنی نظر نہیں اچھی
اُن کو ، سب ہی خراب لگتے ہیں
ہجومی تشدد کا ایک اور واقعہ
ہندوستان میں انسانوں کے ہاتھوں انسان کا قتل ، سوشیل میڈیا کے درمیان تاریکی کی طرف دوڑتا معاشرہ نفرت اور تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کی ہلاکت کو اپنے لیے تمغہ اعزاز سمجھنے والا ٹولہ آنے والے ہندوستان کی خوفناک تصویر پیش کررہا ہے ۔ کرناٹک کے ضلع بیدر کے قریب ہجومی تشدد میں حیدرآباد کے ایک نوجوان کی ہلاکت اور دیگر 3 کے زخمی ہونے کے واقعہ نے ملک کے دیگر انسانی معاشرہ کو اگر صدمہ سے دوچار نہیں کیا ہے تو یہ بے حسی کا بدترین دور کہلائے گا ۔ آیا سوشیل میڈیا نے قتل عام کا لائسنس دے دیا ہے ۔ یہ سوال ہندوستانی معاشرہ کو تیر کی طرح چھبتا ہے تو مستقبل میں سدھار لائے جانے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ اگر نہیں تو پھر یہ سوشیل میڈیا ایک بہانہ بن جائے گا ۔ گذشتہ 10 مئی سے ہجومی تشدد سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ نفرت پھیلا کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے ایک اہم واقعہ میں 22 جون 2017 کو ایک چلتی ٹرین میں 15 سالہ نوجوان جنید کو ہلاک کیا گیا تھا ۔ ملک کے مسلمانوں نے اس واقعہ پر خاموشی برتی اس کے بعد مسلمانوں کی ہلاکتوں کا ایک کے بعد ایک سلسلہ تیز ہوگیا ۔ تب بھی مسلمان خاموش ہی رہے ۔ اب کرناٹک میں ہجومی تشدد سے ایک اور مسلم نوجوان مارا گیا ۔ اب بھی مسلمان خاموش ہی ہیں ۔ یہ مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے ۔ اس کی سنگینی کو محسوس نہ کرنا بڑی مجرمانہ غلطی ہوگی ۔ ملک کی سیکولر پارٹیوں نے بھی اس مسئلہ کو شدت سے نہیں اٹھایا ہے ۔ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے والی بی جے پی اور اس کی ریموٹ کنٹرول والی تنظیم آر ایس ایس کے مشن کی تکمیل اس طرز پر ہورہی ہے تو اب مسلمانوں کو دیگر سیکولر ابنائے وطن کو لے کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ 18 جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں اس مسئلہ کو شدت سے اگر اٹھایا نہیں گیا تو پھر ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں ہجوم کے تشدد ، نفرت کے جنونیوں کا شکار مسلمان ہوتے رہیں گے ۔ بائیں بازو پارٹیوں نے ملک میں پیش آنے والے ہجوم کے تشدد اور معصوم افراد کی ہلاکتوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے مسائل پر پارلیمنٹ میں حکومت کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نفرت کی سیاست اور تشدد کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی کو بیان دینے کے لیے مجبور کرنے کی بات ہورہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس طرح بیان دینے سے کیا نفرت کی سیاست اور تشدد کے ذریعہ اموات کو روکا جاسکے گا کیوں کہ جب حکمراں طاقت کا اصل ایجنڈہ انتشار پسندانہ پالیسیوں پر عمل آوری ہو تو پھر نفرت اور ہجوم کے تشدد کے واقعات کو روکنے کے اقدامات صرف دکھاوا ہوں گے ۔ ہندوستان کو ترقی کی جانب لے جانے کا وعدہ کرنے والی پارٹی نے اپنی ساجھیدار تنظیموں کے ذریعہ ہندوستانی شناخت و تہذیب کو پامال کر کے اس کی ہئیت ہی تبدیل کردی ہے ۔ گذشتہ دو ماہ سے ہجومی تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں ۔ یہ جرم ایک وبا کی طرح پھیلتا جارہا ہے ۔ 20 جون کو جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں توحید انصاری کو ہلاک کیا گیا ۔ ہاپور میں عید الفطر کے دو دن بعد ہی ہجوم نے دو مسلمانوں کو زد و کوب کر کے ہلاک کیا ۔ اس واقعہ سے پانچ دن قبل 13 جون کو جھارکھنڈ کے گوڑا میں ہجوم نے دو مسلمانوں کو بری طرح زد و کوب کر کے مار ڈالا ۔ دادری کے اخلاق کی موت کے بعد ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے کا فرقہ پرستوں کو گویا لائسنس مل گیا ہے ۔ اخلاق حسن ، پہلو خاں ، جنید قاسم اس طرح کئی نام ہیں ، جو مسلمانوں کی آنے والی زندگی کس طرح گذرے گی کا اشارہ دے رہے ہیں ۔ ان واقعات کو نظر انداز کرنے کی سزا کیا ہوگی یہ وقت ہی بتائے گا ۔ حکومت کے سامنے آواز اٹھانے اور اپنا احتجاج درج کروانے سے گریز کا مطلب اجتماعی بے حسی ، اخلاقی زوال اور خوف کی گرفت میں چلے جانے کا ثبوت ہوگا ۔ ہجومی تشدد کو ہوا دینے میں حکمراں پارٹی کے قائدین نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ جب مرکزی وزیر جئینت سنہا نے ہجومی تشدد میں ملوث سزا یافتہ افراد کو اپنے گھر مدعو کر کے انہیں پھول مالائیں پہنائیں اور جب بی جے پی رکن اسمبلی الور نے پہلو خاں کی موت کو حق بجانب قرار دیا تو اب ان قائدین کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے پارلیمنٹ میں بیان کی توقع کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو کیا جواب ملے گا ،یہ کل چہارشنبہ سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے مانسون سیشن میں معلوم ہوگا ۔۔