حیدرآباد ۔ 4 ۔ مارچ : ہندوستان میں رابندر ناتھ ٹیگور کے تعلیمی ادارہ شانتی نکتین کو اس بات کا اعزاز حاصل رہا کہ وہاں کے جی سے لے کر پی جی تک کھلے مقامات درختوں کی چھاؤں تلے طلبہ کو تعلیم دی جاتی رہی اور حالیہ عرصہ تک بھی شانتی نکتین کی ان کلاسس پر فخر کیا جاتا رہا لیکن بدلتے دور کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ عصری تعلیمی آلات منظر عام پر آئے ۔ ڈیجیٹل کلاسس کے تصور کو عملی شکل دی گئی ۔ تمام سہولتوں سے آراستہ کلاس رومس میں طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جانے لگا ۔ ان کے بیٹھنے کے لیے آرام دہ فرنیچر ان جماعتوں ( کلاس رومس ) میں رکھا گیا اس طرح ملک کے تعلیمی نظام میں غیر معمولی تبدیلی کا رجحان دیکھا جانے لگا اس دوران کسی اسکول میں بچوں کو فرش پر بٹھائے تعلیم دی جاتی تو وہ اسکول جس علاقہ میں ہے اسے پسماندہ علاقہ قرار دیا جانے لگا ۔ قارئین …
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اگر کسی اسکول میں طلبہ کے لیے فرنیچر ، اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں ، بچوں کے لیے پینے کے پانی ، کھیل کے میدان ، حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے بیت الخلاء نہ ہو تو بہت حیرت ہوتی ہے اور اس علاقہ کو پسماندہ قرار دیا جاتا ہے اور دیا جانا بھی چاہئے ۔ آپ کو بتادیں کہ اگر کوئی تعلیمی ادارہ بنیادی سہولتوں مثلا فرنیچر ، پانی ، بیت الخلاؤں ، کھیل کے میدان اور اساتذہ سے محروم ہوگا تو ہم اور آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اردو میڈیم اسکولس یا کالج یا پھر اقلیتی علاقوں میں قائم انگریزی میڈیم کالجس ہی ہوں گے ۔ ہمارے شہر کو کس طرح پسماندہ رکھا گیا ہے ۔ اس کی مثال گورنمنٹ جونیر کالج فار گرلز فلک نما سے لی جاسکتی ہے ۔ قدیم شہر کے تاریخی مقام پر واقع اس کالج میں 520 طالبات تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ کالج کی عمارت بہت اچھی ہے ۔ وسیع و عریض باونڈری ہے ۔ باہر سے کالج کو دیکھنے سے اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ اس کالج میں فرنیچر کی کمی ہونے کے باعث طالبات فرش پر بیٹھی تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ سرپرستوں کی متعدد شکایات پر ہم نے آج اس کالج کا دورہ کیا ۔ کالج میں اگرچہ 520 طالبات ہیں لیکن صرف 350 طالبات کے لیے بنچیں ہیں اور مابقی 170 طالبات کو فرش پر بیٹھے لکچرس کی سماعت پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔ طالبات نے بتایا کہ ناکافی فرنیچر کے باعث انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ ایک ہی کلاس میں کچھ لڑکیاں بنچوں پر بیٹھتی ہیں اور کچھ فرش پر بیٹھ کر علم حاصل کرتی ہیں اور اس کا سلسلہ صبح 9-45 منٹ سے 4 بجے تک جاری رہنا ہے ۔ اس طرح فلک نما جونیر کالج فار گرلز میں سوا چھ گھنٹوں تک 170 طالبات کو جماعتوں میں فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ ایک طالبہ نے انتہائی برہمی کے انداز میں بتایا ’ ہمیں شرم آتی ہے کہ ہماری ساتھی طالبات کچھ بنچس پر تو کچھ فرش پر بیٹھتی ہیں ۔ ایک اور طالبہ نے بتایا کہ پہلے تو اس کالج کا بہت برا حال تھا ۔ عمارت بہت خراب حالت میں تھی لیکن اب عمارت اچھی ہوگئی لیکن فرنیچر کی کمی ہے ۔ اس طالبہ نے صحیح کہا ہے کہ 26 جولائی 2008 میں اس کالج کے بارے میں انگریزی میڈیا میں شائع ایک رپورٹ میں بھی لڑکیوں کو فرش پر بیٹھے پڑھتے دکھایا گیا ہے ۔
کچھ طالبات کا کہنا تھا کہ پرنسپل ، اساتذہ ، بہت اچھے ہیں لیکن وہ لوگ اچھا پڑھانے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ امید ہے کہ آئندہ برس تمام طالبات کے لیے بنچوں کا انتظام کردیا جائے گا ۔ بعض طالبات نے کالج میں فرنیچر کی کمی کے باوجود ارکان خاندان کی جانب سے اس تعلیمی ادارہ کی ستائش کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ان کے گھروں میں یہی کہا جاتا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ پرانا شہر میں لڑکیوں کا کالج بھی ہے اور اس میں اردو میڈیم بھی رکھا گیا ہے ۔ ایسے میں یہ کالج اگر بنا چھت اور دیواروں کے بھی ہو تو پابندی سے کالج جاکر علم حاصل کرو ۔ اگر علم حاصل کرو گے تو تمہارا شمار بھی تعلیم یافتہ قوموں میں ہوگا اور حکومت سرکاری اداروں اور حکام غرض کسی کو بھی تمہارے استحصال کی ہمت نہیں ہوگی ۔ وہ اسکولوں اور کالجس کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھنے کی جرات نہیں کرسکیں گے ۔ واضح رہے کہ اس کالج میں فلک نما کے اطراف و اکناف کے علاقوں بشمول چندرائن گٹہ ، بارکس ، بابا نگر ، چھاونی ، جہاں نما ، انجن باولی وغیرہ سے طالبات آتی ہیں اور کالج کا نتیجہ 70 فیصد ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کالج میں کم از کم 15 ارکان عملہ کنٹراکٹ کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ۔ کالج پرنسپل محترمہ فریسا اسماء نے بتایا کہ کالج کی کارکردگی شاندار ہے اور وہ اسے مزید بہتر بنانے کوشاں ہیں ان کے خیال میں ہماری لڑکیوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے بس اچھے ماحول میں تعلیم کی ضرورت ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ریاستی حکومت نے 9 جولائی 2012 کو اعلان کیا تھا کہ صرف اسکولوں میں انفراسٹرکچر کی ترقی پر 2400 کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے ۔ 9800 زائد کلاس رومس کی تعمیر عمل میں لائی جائے گی ۔ اس طرح کالجوں میں انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کے بار بار اعلان کئے گئے تاہم اس جانب کچھ نہیں کیا گیا ۔۔