گورنر تلنگانہ کا خطبہ

بزم میں جام اپنے حصہ کا اٹھا لایا میں خود
لوگ سوچا ہی کئے اپنی ابھی باری نہیں
گورنر تلنگانہ کا خطبہ
گورنر تلنگانہ ای ایس ایل نرسمہن نے ملک کی 29 ویںریاست تلنگانہ کی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے کل پہلی مرتبہ خطاب کیا۔ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد یہ اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا ۔ گورنر نے اپنے خطاب کے ذریعہ تلنگانہ حکومت کی پالیسیوں ‘ اسکے منصوبوںاورمستقبل کی حکمت عملی کا اظہار کیاہے ۔گورنر موصوفنے اپنے خطبہ میں تلنگانہ حکومت کے اس عہد کا اعادہ کیا کہ ٹی آر ایس حکومت اقلیتوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے عہد کی پابند ہے ۔ اس کے علاوہ اقلیتوں کیلئے ریاست کے سالانہ بجٹ میں ایک ہزار کروڑ روپئے فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے اپنے انتخابی منشور کے دوران اقلیتوں کے ساتھ جو وعدے کئے تھے ان کو گورنر کے خطبہ میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے اب تو صرف اعلان کیا گیا ہے اور اس پر عمل آوری کیلئے حکومت کو آئندہ وقتوں میں پوری سنجیدگی اوردیانتداری کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ سارے ہندوستان کی طرح خود تلنگانہ میں بھی مسلمان انتہائی ابتر سماجی صورتحال کا شکار ہیں۔ تلنگانہ ہی وہ خطہ ہے جس میں مسلمانوں نے انتہائی عروج دیکھا تھا ۔ یہاں زمیندار تقریبا مسلمان رہے ہیں ۔ آج بھی لاکھوں ایکڑ اوقافی اراضیات اور کروڑہا روپئے مالیت کی اوقافی جائیدادیں ہیں جو مسلمانوں کے اسلاف نے آئندہ نسلوں کیلئے وقف کی تھیں۔ یہ سارے کچھ مسلمانوں کا رہا ہے لیکن متحدہ ریاست میں مسلمانوں کو انتہائی پسماندگی کو پہونچا دیا گیا تھا ۔ مسلمانوں کی کروڑہا روپئے مالیت کی اراضیات کو تباہ برباد کردیا گیا اور لوٹ مار مچائی گئی ۔ انہیں زندگی کے ہر شعبہ میں پسماندگی میں ڈھکیل دیا گیا تھا ۔ ان ہی وجوہات کی بنا پر مسلمان سماجی ‘ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے ابتر حالات کا شکار تھے ۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے مسلمانوں کے ساتھ جو وعدے کئے تھے اب ان کو گورنر کے خطبہ میں بھی شامل کیا گیا ہے ۔ یہ ایک درست سمت میں قدم ہے ۔ اس کو مزید آگے بڑھانے پر حکومت کو توجہ دینا چاہئے ۔ محض اعلانات تو سارے ہندوستان میں ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل آوری اصل شرط ہے اور ٹی آر ایس حکومت کو اس معاملہ میں اپنی سنجیدگی کا ثبوت فراہم کرنا چاہئے ۔
گورنر کے خطبہ میں ریاست کی ترقی‘ شہر حیدرآباد کی گنگاجمنی تہذیب کے فروغ ‘ شہیدان تلنگانہ کے خاندانوںکی ہر ممکنہ مدد‘ درج فہرست ذاتوں و قبائل اور اقلیتوں کیلئے بڑھ چڑھ کر کام کرنے ‘سیاسی کرپشن کو ختم کرنے ‘ ریاست کے عوام کے معیارزندگی کو بہتر بنانے ‘ غریب خاندانوں کو سطح غربت سے اونچا اٹھانے اور طلبا برادری کی تعلیم کیلئے ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کابھی اعلان کیا ہے ۔ معذورین ‘ معمر شہریوںاور غریب خواتین کووظائف کی فراہمی ‘ بے گھر افراد کیلئے امکنہ کی فراہمی ‘ ملازمین کی تنخواہوںمیںاضافہ اور انہیں ہیلت کارڈز کی اجرائی‘ خواتین پر تشدد اور مظالم کے واقعات کو روکنے کے اقدامات ‘ صنعتوںکے فروغ ‘ انفارمیشن ٹکنالوجی شعبہ کی ترقی کویقینی بنانے جیسے اقدامات کابھی اعلان کیاہے۔ گورنر موصوف نے اپنے خطبہ میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ حکومت تلنگانہ کے مفادات پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریگی اور جمہوری حکمرانی کویقینی بنایا جائیگا ۔ بحیثیت مجموعی گورنر موصوف یہ کا خطبہ عوام کی امیدوں اور توقعات کے عین مطابق کہا جاسکتا ہے ۔ اس خطبہ میں بیشتر اعلانات اور باتیں ایسے ہیں جنہیں برسر اقتدار جماعت تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا تھا ۔ حکومت کی سنجیدگی کاثبوت اس خطبہ سے ملتا ہے کہ وہ اپنے منشور پر عمل آوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ابھی تو صرف ان اعلانات کو دہرایا گیا ہے اور ان پر عمل آوری کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کو پوری سنجیدگی کے ساتھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر کسی اعلان پر عمل آوری ممکن نہیںہوسکے گی ۔
اپوزیشن جماعتوں نے حالانکہ گورنر موصوف کے خطبہ پر مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ اس پر تنقیدیں بھی ہوئی ہیں۔ چونکہ ہماری ریاست ہندوستان کی انتہائی نوزائیدہ ریاست ہے اور اس کے وجود میں آئے چند دن ہی ہوئے ہیں ۔ ایسے میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست کی حقیقی معنوںمیں ترقی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے ۔ خود حکومت کے قیام کو بھی چند ہی دن ہوئے ہیں۔ ان ایام میں کسی عملی کوشش کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ حکومت کے سامنے تمام طبقات کی ترقی ‘ ہر برادری سے انصاف اور ریاست کو آگے بڑھانے جیسے چیلنجس ہیںاور یہ سب کچھ ایک نئے انتظامیہ اور نئے حالات میں کرنا ہے۔ ان حالات میں جہاں حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ کوششیں شروع کرنے کی ضرورت ہے وہیں تمام سیاسی جماعتوںکو حکومت کو وقت دیتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ۔