گردوں کی بیماری کی 10علامات

عالمی سطح پر جہاں تک صحت عامہ کا تعلق ہے، اب عالمی ادارہ صحت ہر ہفتے کوئی نہ کوئی خاص دن مناتا ہے، عالمی یوم ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر ، نقرس، اوسٹیو پوروسس، سرطانِ پستان ، امراض قلب ،شیر مادر وغیرہ کے بعد گزشتہ تین برسوں سے عالمی روزِ گردہ (ورلڈ کڈنی ڈے ) اس لئے منایاجارہاہے کہ طب سے وابستہ افراد گردوں کی بیماریوں کے متعلق تازہ ترین جانکاری حاصل کریں اور پھر عام لوگوں کو گردوں کی بیماری کے متعلق کم از کم اتنی جانکاری دیدی جائے کہ وہ گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے سے قبل ہی اپنا علاج ومعالجہ شروع کریں۔گردوں کی بیماریوں کا قبل از وقت پتہ لگانے اور بروقت علاج کرنے سے عالمی ادارہ صحت کا شرحِ اموات میں دو فیصد سالانہ کمی کرنے کا نشانہ آئندہ دودہائیوں میں پورا ہوسکتاہے۔ غیرمتعدی بیماریوں اور بالخصوص امراض قلب ، جگر ،فشار خون ، ذیابیطس اور گردوں کی مہلک بیماریوں کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہاہے اور یہ بیماریاں صحت عامہ اور (عالمی سطح پر) ’’ہیلتھ بجٹ‘‘ پر ایک ناقابل برداشت بوجھ بنتی جارہی ہیں۔ عالمی سطح پر ان بیماریوں کے علاج و معالجہ پر ہیلتھ کیئر بجٹ کا 80 فیصد خرچ ہوجاتاہے جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔
دل ، جگر ،لبلبہ،پستان اور معدہ کے مقابلے میں گردوں کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی تھی حالانکہ گردوں کے امراض پر ایک کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔اس وقت دنیا میں 1.5ملین گردوں کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو ڈیالسیز دیا جارہاہے یا انہیں گردوں کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں گردوں کے امراض میں ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر اور امراضِ قلب سے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو مریض کو ناکارہ بنا دیتے ہیں یا اسے موت سے ہمکنار کرواتے ہیں۔ اگرگردوں کی بیماریوں کی بروقت تشخیص کی جائے اور مناسب وصحیح علاج معالجہ بہم پہنچایا جائے تو مریض نہ صرف مرض کی پیچیدگیوں سے بچ کرمعمول کی زندگی گذار سکتاہے بلکہ اس کی زندگی کے ماہ و سال میں بھی اضافہ ہوسکتاہے۔

گردوں کی بیماریوں میں روز افروزں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ برصغیر میں ہزاروں لاکھوں لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں مگر وہ بے خبری کے عالم میں زندگی کی شاہراہ پر ’’رینگ‘‘ رہے ہیں۔ان کے علامات اتنی واضح یا شدید نہیں ہوتی کہ وہ کسی معالج سے مشورہ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں۔ گردوں کے دیرینہ یا مزمن مرض میں مبتلا ہونے کے بعد گردوں کی ناکامی میں مبتلا ہونے کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہوتاہے۔ بعض لوگ گردوں کے دیرینہ امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ایک ’’نارمل‘‘ زندگی گذارتے ہیں۔ انہیں کبھی گردوں کی ناکامی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتاہے۔ بہرحال ’’عام اور سیدھے سادے لوگوں ‘‘ کے لئے گردوں کی بیماریوں سے متعلق جانکاری ایک ’’طاقت ‘‘ ہے۔ اگر وہ گردوں کی بیماریوں کے علامات کی جانکاری رکھتے ہوں تو وہ مرض میں مبتلا ہوتے ہی کسی معالج سے مشورہ کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی دوست درج ذیل علامات میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کا اظہار کرتاہے تو آپ کو فوری طورپر کسی ماہر معالج سے مشورہ کرناچاہئے۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بعض علامات گردوں کی بیماریوں کی بجائے کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں۔
علامت نمبر:1

پیشاب کیا ہے ؟
ہر انسان میں ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف دوگردے ہوتے ہیں۔ ان کا کام جسم کے اندر موجود محلول(پانی)اور دیگر مائع جات کو فلٹر کرنا ہے اور جسم سے ردی ، فالتو اور زہریلا مواد خارج کرناہے۔ پانی اور نمکیات کی مقدار کو طبعی حدود میں رکھنے کے علاوہ بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا ہے اور خون میں خلیات کی تعداد کومقررہ مقدار میں رکھنے کے لئے ہارمون ترشح کرناہے۔ اگر گردوں یا اس کے ساتھ وابستہ اعضاء میں کوئی خرابی یا بیماری ہو تو پیشاب کے رنگ اور بہاؤ میں بدلاؤ آسکتاہے۔آپ کے پیشاب کا رنگ بدلا ہواہے ، نارمل پیشاب ہلکے قہوہ رنگ کا ہوتاہے۔ اگر یہ لال ، زیادہ پیلا ، پیلا ، سبز ، کالا ، سفید دودھیا، زیادہ جھاگ دار ،نیلا ،نارنجی یا گہرے رنگ کا ہو تو فوری معائنہ کروائیں۔آپ کو بار بار پیشاب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ بہت زیادہ یا بہت کم پیشاب کرتے ہیں۔پیشاب رُک رُک کر آتاہے۔ پیشاب کرتے وقت ہچکچاہٹ ، جلن یا سوزش محسوس ہوتی ہے۔ اگر جلدی سے باتھ روم نہ پہنچیں تو پیشاب قطرہ قطرہ ٹپکنے لگتاہے یا اس پر کنٹرول ہی نہیں رہتاہے۔ایسامحسوس ہوتاہے جیسے پیشاب کرنے کے بعد ابھی مثانہ پوری طرح خالی نہیں ہواہے۔پیشاب کے ساتھ (یاپیشاب کرنے سے پہلے یا آخر میں )خون بھی آتاہے۔پیشاب کرتے وقت زور لگا نا پڑتاہے تاکہ مثانہ خالی ہو جائے۔رات کو دو تین بار جاگنا پڑتاہے۔ پیشاب کرنے کے لئے جاگنے کی وجہ سے نیند میں خلل پڑتاہے۔

علامت نمبر: 2
جب گردوں کا کوئی مرض بہت دیر تک متاثر کرے تو دونوں گردے دھیرے دھیرے خستہ ہوجاتے ہیں اور وہ اضافی پانی جسم سے خارج کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں جس سے پیروں ، ٹخنوں ، ٹانگوں ، ہاتھوں میں اور چہرے پر ورم ظاہر ہوجاتاہے۔صبح کے وقت آنکھوں کے نچلے حصوں میں ورم نمایاں ہوتاہے اور ٹانگوں ،پیروں ،ٹخنوں پر اگر ہاتھ کے انگوٹھے سے دباؤڈالا جائے تو دبانے کی جگہ گڑھا جیسا نمودار ہوجاتاہے۔

علامت نمبر:3
تھکاوٹ : صحت مند گردے ایک انتہائی اہم ہارمون اریتھروپوئیٹین بناتے ہیں۔یہ ہارمون جسم کے خلیات کو آکسیجن پہنچانے والی (خون میں موجود) سرخ خلیات کو بنانے میں اہم ترین رول ادا کرتاہے۔ جب گردے صحیح ڈھنگ سے اپنا کام انجام دینے میں ناکام ہوں تو اس اہم ہارمون کی کمی واقع ہوجاتی ہے ،نتیجہ یہ کہ سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔ اس لئے دماغ اور عضلات جلدی تھک جاتے ہیں اور مریض تھکاوٹ محسوس کرتاہے، اسے ہروقت اپنا آپ خستہ لگتاہے۔

علامت نمبر:4
الرجی،خارش: انسانی جسم میں دو گردے جھاڑ پونچھ اور صفائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ جسم سے فالتو زہریلا مواد خارج کرنے میں اپنا اہم رول نبھاتے ہیں۔ جب گردے کسی بیماری کی و جہ سے متاثر ہوجائیں تو یہ زہریلا اور غیر ضروری مواد خارج نہیں کرسکتے ہیں اور وہ مواد جسم میں جمع ہوجاتاہے۔ مریض کو ہروقت جسم کی جلد پر حساسیت (الرجی)نظر آتی ہے اور اسے ہروقت جلد کھجلانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔بسااوقات اسے یوں محسوس ہوتاہے جیسے نہ صرف جلد بلکہ ہڈیوں کے اندر بھی خارش ہورہی ہے۔ مریض اتنی شدت سے جلد کو رگڑتاہے کہ کسی وقت اس کی جلد زخمی ہوجاتی ہے اور اس سے خون بہنے لگتاہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی جلد میں دراڑیں پڑی ہوں او روہ ایک عجیب سی بے قرار ی کا شکار ہوجاتاہے۔

علامت نمبر:5
منہ میں معدنی ذائقہ: جب گردوں کی بیماری طویل مدت تک مریض کو اپنی گرفت میں لئے رکھے تو گردے خون میں موجود زہریلا مواد ،یوریا جسم سے رفع کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ یوریاجسم کے خون کے اندر جمع ہوجاتاہے اس کی سطح بڑھتی جاتی ہے اور مریض یوریمیامیں مبتلا ہوجاتاہے۔ مریض جو کچھ کھاتاہے اسے عجیب سا ذائقہ محسوس ہوتاہے۔ اسے یوں لگتاہے جیسے اسے کوئی معدن چبانا پڑتا ہے۔ بعض مریض کہتے ہیں کہ ’’ ان کا منہ بدمزہ ہے‘‘ اور انہیں یوں محسوس ہورہاہے جیسے وہ پگھلا ہوا سیسہ نگل رہے ہوں۔ مریض کی بھوک بالکل ختم ہوجاتی ہے اور اسے کھانے پینے سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ مریض کو گوشت کھانے سے شدید نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ گوشت کو دیکھتے ہی منہ پھیرتاہے۔ چونکہ مریض کی بھوک ختم ہوجاتی ہے اس لئے اس کے جسم میں پروٹین ، کاربوہائیڈریٹ ، وٹامن اور نمکیات کی کمی ہوتی ہے اور اس کا وزن کم ہوجاتاہے اور وہ حد سے زیادہ کمزوری محسوس کرتاہے۔ وہ کوئی بھی کام انجام دینے میں ناکام ہو جاتاہے۔

علامت نمبر:6
اُبکائی ، الٹی: جب گردوں کو کوئی مزمن بیماری گھیر لے تو وہ نیم مردہ ہوجاتے ہیں اور خون میں غیر ضروری یا زہریلے مواد ،یوریا کی سطح بڑھتی رہتی ہے۔ یوریا کی سطح بڑھنے سے مریض پہلے اُبکائی محسوس کرتاہے اور اگر اسے علاج میسر نہ ہوا تو اسے اُلٹیوں کی شکایت لاحق ہوجاتی ہے۔ اُبکائی سے پہلے شدید خارش اور بے قراری بھی ہوسکتی ہے۔ بھوک بالکل نہیں لگتی ہے۔ مریض اُبکائی اور اُلٹی کے ڈر سے کھانا پینا ترک کرتاہے اس سے مریض ’’عام کمزوری‘‘ محسوس کرتاہے اور اس کا وزن گھٹ جاتاہے۔ اُلٹی آنے کی وجہ سے مریض دیگر بیماریوں کے کنٹرول کیلئے روز مرہ کی ادویات بھی نہیں لے سکتا۔

علامت نمبر:7
تنگی تنفس (سانس کا پھول جانا) : جب گردوں کی بیماری ایک خاص مقام پر پہنچتی ہے تو دیگر علامات کے علاوہ مریض کی سانس ’’تنگ ‘‘ ہوجاتی ہے یا پھولنے لگتی ہے۔ وہ سینے پر عجیب قسم کا دباؤ محسوس کرتاہے۔ اس کے دووجوہات ہیں۔ (۱) پھیپھڑوں میں اضافی پانی جمع ہوجاتاہے۔ (۲) خون میں سرخ خلیات کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے جس سے پھیپھڑوں اور جسم کے دیگر خلیات اور رگوںتک آکسیجن طبعی مقدار میں نہیں پہنچ پاتاہے اور آکسیجن کی کمی سے مریض تنگی تنفس کا شکار ہوجاتا ہے۔مریض کی سانس پھولتی ہے وہ گھبرا جاتا ہے ، اس کی نیند اس سے روٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ لیٹ جانے سے اس کی سانس زیادہ پھولتی ہے۔ وہ اپنے سینے پر دباؤ محسوس کرتا ہے اور وہ بے چین ہوجاتاہے۔اس کی زندگی اس کے لئے عذاب بن جاتی ہے۔

علامت نمبر:8
سردی کا احساس: جب کوئی مریض گردوں کی کسی مزمن بیماری میں مبتلا ہو اور اس کے گردے اپنا کام صحیح ڈھنگ سے انجام دینے میں ناکام ہورہے ہوں تو اسے دوسرے صحت مند لوگوں کے مقابلے میں سردی کاحد سے زیادہ احساس ہوتاہے۔ جب دوسرے لوگ گرمی کی شکایت کررہے ہوں تو وہ مریض سردی سے کانپ رہا ہوتا ہے۔ مریض کو یوں محسوس ہوتاہے جیسے اسے برف کی ڈلی پر لٹا دیا گیا ہو یا یخ بستہ کمرے میں قید کیا گیا ہو،ایسا اس لئے ہوتاہے کہ اسے خون کی کمی ہوتی ہے یعنی اس کے جسم میں سرخ خلیات کی تعداد اتنی کم ہوئی ہوتی ہے کہ اس کی جلد تک حرارت پہنچ نہیں پاتی ہے۔

علامت نمبر:9
سر چکرانا اور…: گردوں کی ناکامی سے جسم میں خون کی کمی واقع ہونے سے دماغ کی آکسیجن سپلائی بری طرح متاثر ہوتی ہے جس سے مریض کا سر چکراتاہے ، اسے یوں لگتاہے جیسے اس کے سر میں گیس بھری ہوئی ہے یا سر خالی خالی سا ہے۔ اسے کسی خاص کام پر توجہ مرکوز کرنے میں سخت دشواری پیش آتی ہے۔ اس کی یادداشت میں خلل پڑتا ہے۔ وہ اکثر چیزیں بھول جاتا ہے۔اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا رہتا ہے۔ کانوں میں شور شرابہ ہوتاہے اور وہ ایک عجیب سی بے قراری محسوس کرتاہے۔ وہ کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔اس پر ہر وقت سستی اور کاہلی سی طاری رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے بے زار ہوجاتاہے۔

علامت نمبر10:
درد: کمر کے نچلے حصے، پہلو یا ٹانگ میں درد گردوں کی کسی مزمن بیماری کی علامت ہوسکتاہے۔ کمر کے نچلے حصے میں درد پیٹ کے دونوں طرف (وسط میں )یا متاثرہ گردہ(دائیں یا بائیں ) کے طرف ٹانگ یا کولہے میں درد ، گردوں کی بیماری کی طرف اشارہ ہوسکتاہے۔ گردوں میں اگر کئی رسولیاں ظاہرہوں اور ان میں اضافی پانی جمع ہو تو درد شروع ہوتاہے۔ کمر میں درد کے علاوہ رات کو کئی بار باتھ روم جانا پڑتاہے۔ بعض مریض درد کی شدت سے بستر سے چپک جاتے ہیں۔ بسااوقات رات کے وقت درد اتنا شدید ہوتاہے کہ عورت ذات کو دردِ زہ کی یاد آتی ہے۔ مریض درد سے بیقرار ہوجاتاہے اور وہ کروٹیں بدلتا رہتاہے۔ اسے فوری انسداد درد ادویات کی ضرورت پڑتی ہے۔