مافیا طرز کی گداگری پر نظر رکھی جائے ، ملکی قوانین میں گداگری قابل سزاء
حیدرآباد۔29جولائی (سیاست نیوز) گداگری ملکی قوانین کے اعتبار سے قابل سزا جرم ہے اس کے باوجود مردم شماری 2011کی رپورٹ کے مطابق ہندستان میں 3.7لاکھ پیشہ ور گداگروں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں 2.6لاکھ ہندو گداگر ہیں جو کہ گداگروں کی آبادی کا 72.22فیصد ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں 2011مردم شماری کی رپورٹ کے افشاء کے بعد یہ بات منظر عام پر آئی۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں 72.89کروڑ نفوس کو نان ورکرس (کام نہ کرنے والے) کے زمرے میں رکھا گیا ہے جن میں 3.7لاکھ گداگروں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی گذر بسر گداگری کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گداگروں کی جملہ 3.7لاکھ آبادی میں 92ہزار 760مسلم گداگروں کی نشاندہی عمل میں آئی ہے جو کہ گداگروں کی آبادی کا 25فیصد کے قریب ہوتا ہے۔اس اعتبار سے ملک میں گداگری کرنے والے ہر 4میں ایک مسلم ہے۔ جبکہ مابقی تین کا تعلق دیگر مذاہب سے ہے۔ ہندو گداگروں کی اتنی بڑی تعداد کا اگرملک کی آبادی کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر ہندو گداگروں اور جملہ آبادی میں کوئی زیادہ تفریق نظر نہیں آئے گی جبکہ 2011مردم شماری کے مطابق ہندستان میں مسلمانوں کی جملہ آبادی کا تناسب 14.23بتایا جا رہا ہے اور مسلم گداگروں کا گداگروں کی آبادی کے اعتبار سے فیصد 25بتایا جا رہا ہے۔ ملک میں 2001اور 2011کے درمیان گداگری میں نمایاں گراوٹ ریکارٹ کئے جانے کا دعوی کرتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ 2001مردم شماری رپورٹ میں 6.3لاکھ گداگروں کی نشاندہی کی گئی تھی اور اب اس میں قریب50فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ 2011مردم شماری رپورٹ کے بموجب ملک بھر میں 3303عیسائی گداگر ہیں جو کہ گداگروں کی آبادی کا 0.88فیصد ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر عیسائیوں کی مجموعی آبادی 2.3فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار کے انکشاف کے بعد حکومت کو چاہئے کہ گداگروں کی باز آبادکاری کے اقدامات کو مؤثر بنانے کے ساتھ ساتھ مافیا کے طرز پر کی جانے والی گداگری سے سختی سے نمٹنے کے اقدامات کرے اور گداگروں کی بین ریاستی ٹولیوں پر خصوصی نظریں رکھی جائیں تاکہ نقل مکانی کرتے ہوئے گداگری کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کو یقینی بنایا جا ئے۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے شہر حیدرآ باد کو گداگروں سے پاک بنانے کے اقدامات کئے جانے کا اعلان کیا گیا اور یہ کہا گیا ہے کہ شہر میں گداگری کو ختم کرنے کیلئے سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں بلدیہ نے شہریوں سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے گداگروں کو بھیک نہ دینے کی اپیل بھی کی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ عوام کی جانب سے سگنلس اور راہ چلتے ہوئے بھکاریوں کو بھیک دیئے جانے کے سبب ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔حیدرآباد کو گداگری سے پاک بنانے کی مہم کے آغاز کے دوران اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے حدود میں 25000گداگر ہیں جن میں 40فیصد سے زیادہ فرضی گداگر ہیں جو اس گداگری کو بطور پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔شہر حیدرآباد میں گداگری کی یہ صنعت یومیہ 75لاکھ روپئے کو تجاوز کر چکی ہے اور جو بچے گداگری میں ہوتے ہیں وہ یومیہ 500روپئے کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح روزانہ شہریوں کی جیب سے نکل کر گداگر کے ہاتھ میں پہنچنے والی 75لاکھ کی رقم کا بڑا حصہ شراب نوشی اور نشہ آور اشیاء کی خریدی پر صرف کیا جاتا ہے جبکہ 20فیصد تک کی رقم اشیائے خورد و نوش پر خرچ کی جا تی ہے۔2011مردم شماری میں بھکاریوں کے متعلق فراہم کردہ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلم گداگروں میں خاتون گداگروں کی تعداد زیادہ ہے اور ان کا فیصد 56.38سے تجاوز کر چکا ہے اور مرد گداگروں کا فیصد 43.61ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جبکہ گداگروں کی مجموعی آبادی میں مردوں کا فیصد 53.13ہے اور 46.87خاتون گداگر ہیں۔ہندستانی قوانین کے مطابق گداگری قابل سزاء جرم ہے اور اس جرم کیلئے3تا10سال کی سزاء سنائی جا سکتی ہے۔