گجرات کے رائے دہندوں میں شعور بیداری سے بی جے پی متفکر

بی جے پی کو شہری حدود میں کامیابی کے باوجود نشستوں میں اضافہ کرنا مشکل
حیدرآباد۔6 ڈسمبر(سیاست نیوز) شہری علاقوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہونے کے نتیجہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی مستعملہ ووٹوں میں اپنا حصہ بڑھا سکتی ہے لیکن نشستوں میں موجود معمولی فرق کودور کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے انتہائی مشکل ترین عمل ہوگا۔ گجرات انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی شہری علاقوں پر انحصار کئے ہوئے ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ دیہی گجرات میں اپنے کمزور موقف کو بہتر بنانے کے متحمل نہیں رہے۔ گجرات انتخابات پر نہ صرف ہندستان بلکہ دنیا کے ان ممالک کی نظریں بھی مرکوز ہیں جن کے تجارتی اور سیاسی مفادات ہندستان سے وابستہ ہیں۔ ہندستان میں موجود بیشتر سفارتخانوں کے عہدیداروں کی جانب سے گجرات انتخابات کے سلسلہ میں جاری سرگرمیوں اور عوامی نبض کو جاننے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ مستقبل کی حکمت عملی کو قطعیت دی جاسکے۔ ریاست گجرات میں ترقیاتی سرگرمیوں اور ریاست میں امن و امان کی برقراری کے نام پر ووٹ مانگ رہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی دیہی علاقوں میں ابتر ہو رہی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بی جے پی صدر نے ہر مرکز رائے دہی پر 9کارکن اور مائیکرو آبزرور لگانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کسی بھی مرکز رائے دہی پر کوئی لغزش نہ ہونے پائے۔ دیہی علاقو ںمیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف کمزور ہوتا جا رہا ہے ان علاقو ںمیں کانگریس کا موقف مستحکم ہونے لگا ہے لیکن سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ رائے دہندوں کو مرکز رائے دہی تک لانے اور انہیں ووٹ کا استعمال کروانے کی صلاحیت بھارتیہ جنتا پارٹی میں ہے جبکہ کانگریس میں اس طرح کے کارکنوں کا فقدان پایا جاتا ہے جو رائے دہندوں کو مراکز رائے دہی تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ گجرات میں پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے فوری بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے حکمت عملی تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جبکہ کانگریس کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہاہے کہ کانگریس نے جو حکمت عملی اختیار کرنی تھی وہ کرلی ہے اور اس حکمت عملی کے مطابق ہی وہ کام کرے گی۔

 

کانگریس نے جو منصوبہ تیار کیا ہے اس کے مطابق گجرات انتخابات میں کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکامیوں اور اپنے منصوبہ کے علاوہ کسی اور مسئلہ پر گفتگو نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی انتخابی مہم کو مذہبی رنگ دینے کے علاوہ اس کا ہر طریقہ سے استحصال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی صدر امیت شاہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جار ہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو اپنی کرسی کھسکتی نظر آنے لگی ہے اور پہلے مرحلہ کی رائے دہی کے بعد ہی صورتحال واضح ہو جائے گی۔ کانگریس کے سرکردہ قائدین بالخصوص نو نامزد صدر کانگریس راہول گاندھی گجرات انتخابات کے علاوہ پارٹی کی دیگر مصروفیات اور پارٹی امور انجام دیتے ہوئے گجرات انتخابات کی مہم بھی چلا رہے ہیں جبکہ امیت شاہ مکمل طور پر گجرات انتخابات میں مصروف نظر آرہے ہیں اور پردھان سیوک بھی اپنی آبائی ریاست میں اپنے تعلق کا احساس دلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ ریاست گجرات میں رائے دہندوں کے موڈ کے متعلق کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں مکمل ووٹ کا استعمال کریں گے کیونکہ مخالف بی جے پی طاقتوں کے جلسہ و انتخابی مہم میں بھی عوام کی کثیر تعداد دیکھی جا رہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ یہ بھیڑ پیسوں یا لالچ کے ذریعہ نہیں بلائی جا رہی ہے لیکن بعض گوشوں کا کہنا ہے کہ ان جلسوں کو کامیاب بنانا بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ بی جے پی کے متعلق گجرات کے رائے دہندوں کے خیال میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے اور کہا جار ہا ہے کہ جو رائے دہندے اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو تاجرین‘ سرمایہ داروں اور اعلی ذات کی سیاسی جماعت سمجھا کرتے تھے وہ اب اپنا ذہن تبدیل کرنے لگے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا احساس ہوتا جا رہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی جماعت ہے جو ضرورت کے اعتبار سے اپنا موقف اختیار کرتی ہے اور پارٹی کا موقف ہمیشہ اعلی ذات یا تاجر برادری کے مفادات کے حق میں نہیں رہ سکتا۔ اعلی ذات‘ تجارتی طبقہ اور سرمایہ داروں میں پیدا ہونے والے اس احساس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کچھ حد تک متفکر ہے لیکن اس کے تفکرات کو زائل کرنے کیلئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن طبقات کی ناراضگی کا خوف ہے وہ طبقات میں اکثریت ووٹ کا استعمال نہیں کرتی لیکن بھاری تعداد میں رائے دہندوں پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ان طبقات سے تعلق رکھنے والوں کا کہناہے کہ ریاست گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو نا قابل تسخیر حد تک پہنچانے میں ان طبقات کا ہی اہم کردار ہے ۔ کانگریس کی جانب سے اب تک بھی ان طبقات کو قریب کرنے کی کوشش نہ کئے جانے کے نتیجہ میں شائد یہ طبقات بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریب رہیں لیکن اب ان میں بی جے پی کی وہ وقعت باقی نہیں رہی۔