خواب تو سنہرے ہیں ٹوٹ کے جو بکھریں گے
اُن سے اُنگلیاں اپنی خونچکاں نہ ہوجائیں
گجرات چوٹی کانفرنس
ہندوستان اور عالمی سطح پر معیشت کا معاملہ کتنے ہی موقعوں پر زیربحث رہا ہو، حکومتیں اس معاشی گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ اگر معیشت سرپٹ دوڑتی ہے تو اس کے منفی اثرات حکومت کے ساتھ ساتھ عوام پر ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر ہندوستان کو معاشی سطح پر ایک ابھرتا ہوا ملک تسلیم کیا جارہا ہے، مگر وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں گجرات میں منعقدہ چوٹی کانفرنس میں چند عالمی ماہرین معاشیات یا سفارتی عہدیداروں نے عالمی معاشی ترقی کے حوالے سے ہندوستان کی معیشت کے بارے میں یہ واضح کردیا کہ جب تک کسی معاشرہ میں ذات پات، فرقہ پرستی، امتیازات کا چلن برقرار رہے گا، وہاں معاشی ترقی کے ثمرات حاصل ہونے کی توقع کم ہوتی ہے۔ جس ملک میں فرقہ پرستوں، ذات پات کے نظریات، مذہبی تعصب پسندی کا راج ہوتا ہے، معیشت کے بارے میں غوروفکر کرنے کی برسراقتدار پارٹیاں ہرگز ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اس چوٹی کانفرنس میں بیرونی قائدین سے ایک اچھا سبق یہ ملا کہ معاشی ترقی کے لئے ہر ملک میں امن و امان، انصاف اور ہر کے ساتھ انصاف ضرور ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وزیراعظم نریندر مودی اپنی حکومت میں ہندوستان کے تمام عوام کے ساتھ بلاامتیاز انصاف کریں گے، مساوات، یکساں ترقی کے مواقع فراہم کریں گے، ایک پرامن معاشرہ کو فروغ دے کر عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک مضبوط معاشی طور پر طاقتور ملک بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ یہ سوال بذات خود مودی حکومت کے لئے زودِ ہضم نہیں ہے۔ گجرات چوٹی کانفرنس میں عالمی بینک کے سربراہ جم یانگ کم نے کہا کہ ہندوستان کو 2015ء میں 6.4 فیصد پیداواری ترقی ہوسکتی ہے اور آئندہ سال اس میں اضافہ ممکن ہے، لیکن ذات پات کی بنیاد پر پالیسی سازی کے علاوہ دیگر فرقہ وارانہ عوامل اس ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ حکومت ہند اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے اور عالمی بینک بھی ہندوستان کے روشن مستقبل کو دیکھ رہا ہے لیکن ہندوستانی معاشرہ کو ذات پات، امتیازی سلوک اور فرقہ وارانہ صورتِ حال سے دوچار کرنے کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔ ذات پات کی شناخت نے خوشحالی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ کئی شعبوں میں امتیازات کے باعث روزگار کی فراہمی اور دیگر مارکٹ شعبوں میں سوتیلے پن کی وجہ سے معاشرہ کے تمام طبقات کے ساتھ انصاف نہیں ہوپاتا۔ عالمی بینک کے علاوہ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے وزیراعظم نریندر مودی کی گجرات چوٹی کانفرنس میں شرکت کی اور اس سرمایہ کاری کے حصول کی کوشش کی ستائش کی مگر ان قائدین کا نکتہ نظر یہی تھا کہ حکومت کو اپنے عوام کے ساتھ امتیازات روا نہیں رکھنے چاہئیں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی انہی امتیازات اور فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی نوک پر اقتدار کے قریب پہونچ چکی ہے تو ترقی کے مساوی ثمرات ہر طبقہ تک پہونچانے میں ناانصافی سے کام لیا جائے گا بلکہ کام لیا جارہا ہے۔ گجرات چوٹی کانفرنس کے ذریعہ وزیراعظم مودی نے ایک متحرک ہندوستان کا پیام دیتے ہوئے طاقتور معاشی عزائم کا مظاہرہ ضرور کیا ہے لیکن اس مظاہرہ کے عوض ہندوستان کو حاصل ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل آوری کے درمیان بہت بڑا فرق پایا جائے تو پھر یہ کوششیں آگے چل کر کوئی خاص نتائج برآمد نہیں کرسکیں گی۔ وزیراعظم مودی نے عالمی سرمایہ کاروں کو تیقن دیا ہے کہ ان کی حکومت ہر قدم پر ان کی مدد کرے گی۔ اگر بیرونی سرمایہ کار ایک قدم آگے بڑھیں گے تو حکومت ہند دو قدم آگے بڑھ کر ان کی مدد کرے گی۔ ہندوستان کو ایک خوشگوار سرزمین اور سرمایہ داری کے لئے وسیع تر مارکٹ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے مودی نے سابق کانگریس حکومت کی خرابیوں کی جانب نشاندہی کی ہے۔ ہندوستان میں تجارتی فضاء میں پیدا کردہ رکاوٹوں کے باعث بیرونی سرمایہ کاری کا فیصد گھٹ گیا تھا۔ سابق حکومتیں ہوں یا موجودہ بی جے پی حکومت اس کے پاس ہندوستان کے اندر انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کیلئے ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ جب تک ہندوستان کے ہر شہر اور دیہات کو سڑکوں، راستوں، برقی، عمارتوں اور حمل و نقل کی سہولتوں سے آراستہ نہیں کیا جاتا، ترقی کی اُمید صرف کاغذ کی حد تک محدود رہے گی۔ حکومت کے پاس فنڈس کی کمی یا دور اندیش پالیسیوں کے فقدان کی وجہ سے آج اچھے خاصے بڑے شہر بھی دیہات کی کیفیت میں تبدیل ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ لاپرواہی اور مسائل کو نظرانداز کرنے کی عادت ہے۔ کانگریس حکومت ہو یا بی جے پی یا کسی اور پارٹی کی حکومت ، اگر ہندوستان کو ترقی دینے کی آرزو کے بجائے بدنیتی حائل ہو تو معاشی حالات ابتر ہی ہوں گے۔ گجرات چوٹی کانفرنس یا اس طرح کے ہزارہا کانفرنس کے انعقاد سے ترقی کا حصول غیریقینی اور فضول ثابت ہوگا۔