گجرات انسداد دہشت گردی بل واپس، مزید معلومات طلب

صدرجمہوریہ ہند کا اقدام، مکرجی بل واپس کرنے والے تیسرے صدر

نئی دہلی ۔ 28 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) متنازعہ انسداد دہشت گردی بل جو گجرات اسمبلی میں منظور ہوچکا ہے، لیکن ماضی میں یو پی اے حکومت نے اسے دو بار مسترد کردیا تھا۔ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے حکومت گجرات کو اسے واپس کردیا تھا۔ اس کے بعد ریاستی حکومت نے اس قانون سازی سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔ گجرات کنٹرول آف ٹیرارزم اینڈ آرگنائزڈ کرائم (جی سی ٹی او سی) بل 2015ء اس وقت سے تعطل کا شکار ہے جبکہ اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی نے سب سے پہلے اسے 2003ء میں متعارف کروایا تھا اور صدرجمہوریہ نے مرکزی وزارت داخلہ کو یہ بل واپس کردیا تھا کیونکہ انہیں مجوزہ قانون کی بعض دفعات سے متعلق مزید معلومات کی ضرورت تھی۔ وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے آج کہا کہ وزارت داخلہ مزید معلومات صدرجمہوریہ کو فراہم کرے گی۔ یہ معلومات حکومت گجرات سے حاصل کی جائیں گی۔ وزارت داخلہ نے صدرجمہوریہ کو ان کی مراسلت کے بعد اطلاع دی تھی کہ یہ مجوزہ قانون واپس لے لیا گیا ہے اور اس کی ازسرنو تدوین کے بعد منظوری کیلئے روانہ کیا جائے گا۔ یہ متنازعہ بل صدرجمہوریہ کو منظوری کیلئے ستمبر 2015ء میں بھیجا گیا تھا۔ قانون کے تحت گنجائش فراہم کی گئی تھی کہ ملزم کے موبائیل کال میں مداخلت کے ذریعہ محصلہ ثبوت تسلیم کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اگر ملزم نے تحقیقاتی عہدیدار کے سامنے عدالت میں اعتراف جرم کیا ہو تو اسے بھی تسلیم کیا جائے گا۔ گذشتہ سال جولائی میں مودی حکومت مرکز میں قائم ہوئی۔ اس نے مجوزہ قانون ریاستی حکومت کو واپس کرتے ہوئے وزارت اطلاعات و ٹیکنالوجی کی جانب سے اٹھائے ہوئے چند مسائل کے بارے میں وضاحت طلب کی۔ وزارت اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے قانون کی اس دفعہ پر اعتراض کیا تھا جو ٹیلیفون پر بات چیت میں دخل اندازی کی اجازت دیتی ہے اور اسے عدالت میں بطور ثبوت تسلیم کیا جاتا ہے۔ حکومت گجرات نے وزارت اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے اعتراض کو سختی سے مسترد کردیا تھا۔

 

اپنے جواب میں حکومت گجرات نے حوالہ دیا تھا کہ متعلقہ فہرست میں جو موضوعات مذکور ہیں، ان کے تحت مرکز اور ریاست مساوی طور پر قانون فوجداری اور فوجداری عمل کیلئے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہیں۔ مرکزی حکومت نے مہلت میں اضافہ سے متعلق دفعہ کی منظوری دے دی تھی جس کے تحت اگر حکومت 90 دن میں دیگر مرکزی وزارتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فرد جرم پیش نہیں کرسکتی تو مہلت میں 180 دن تک توسیع دی جائے گی۔ مارچ 2015ء میں گجرات اسمبلی میں سخت گیر قانون دوبارہ منظور کیا۔ تاہم اس میں متنازعہ دفعات برقرار رکھی گئیں جو قبل ازیں دو مرتبہ اسی نوعیت کے مجوزہ قانون کے صدر جمہوریہ کی جانب سے مسترد کئے جانے کی وجہ بنی تھی۔ مسودہ قانون سب سے پہلے اس وقت کے صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام نے 2004ء میں مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ مواصلات میں خلل اندازی کی دفعہ حذف کردی جائے۔ بعدازاں اسے اس وقت کی صدر پرتیبھا پاٹل نے مسترد کیا تھا۔ دونوں مواقع پر اس وقت کی یو پی اے حکومت نے صدرجمہوریہ کو مجوزہ قانون مسترد کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مجوزہ قانون کی کئی دفعات مرکزی قانون سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ مرکزی قانون غیرقانونی سرگرمیاں (انسداد) قانون ہے۔
کانگریس کی جانب سے صدرجمہوریہ کی ستائش
احمدآباد سے موصولہ اطلاع کے بموجب اپوزیشن کانگریس نے صدرجمہوریہ کے حکومت گجرات کے سخت گیر مجوزہ قانون کو واپس کردینے کے اقدام کی ستائش کی۔ کل ہند کانگریس کے ترجمان شکتی سنہہ نے کہا کہ کانگریس کا موقف اس مجوزہ قانون کے خلاف اسی وقت سے ہے جبکہ 2003ء میں اسے گجرات اسمبلی میں پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ جب حکومت گجرات نے مجوزہ قانون سے دستبرداری اختیار کرلی تھی تو کانگریس کا موقف درست ثابت ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ قانون کا مقصد درحقیقت انسداد دہشت گردی نہیں بلکہ ’’ووٹ بینک سیاست کیلئے ایک ہتھیار‘‘ کے طور پر اس قانون کی متنازعہ دفعات کا استعمال ہے۔