گاندھی جی کے قتل کا مسئلہ راجیہ سبھا میں اُٹھانے کی کوشش

سبرامنیم سوامی کے ریمارکس پر کانگریس کا اعتراض، نیشنل آرکائیوز تک رسائی کا تذکرہ
نئی دہلی ، 26 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بی جے پی رکن سبرامنیم سوامی کی آج راجیہ سبھا میں گاندھی جی کے قتل کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش پر اُن کے اور کانگریس اراکین کے درمیان تلخ الفاظ کا تبادلہ دیکھنے میں آیا۔ وقفہ صفر کے دوران یہ مسئلہ اٹھاتے ہوئے سوامی نے کہا کہ مودی حکومت نے اس قتل سے متعلق زیادہ تر فائلوں کو نیشنل آرکائیوز میں رکھا ہے۔ یہ بیان کرتے ہوئے کہ انھیں ان فائلوں کو پڑھنے کا موقع ملا، سوامی نے کہا کہ کئی ’’گھٹیا تبصرے‘‘ کئے جارہے ہیں اور ’’حتیٰ کہ پارلیمنٹیرینس ایسے ریمارکس کررہے ہیں اور سپریم کورٹ کو اُن کی سرزنش کرتے ہوئے انھیں سخت انتباہ دینا پڑا‘‘۔ ’’لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ایوان اس پر مباحث کرے اور میں اپنی طرف سے ایوان کے مفاد میں تین نکات کی نشاندہی کرسکتا ہوں جو قدیم ریکارڈز کے مطالعے سے اُبھر آئے ہیں۔‘‘ وہ اپنا پہلا نکتہ پیش کرنے ہی والے تھے کہ آنند شرما (کانگریس) کچھ کہنے کیلئے نشست سے اُٹھ کھڑے ہوئے، لیکن اُن کی بات سنی نہ جاسکی۔ ڈپٹی چیئرمین پی جے کورین نے شرما سے کہا کہ سوامی کو یہ مسئلہ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے، جبکہ سوامی نے یہ الزام لگا دیا کہ شرما ’’کرسیٔ صدارت پر سوال اٹھا رہے ہیں‘‘۔

کورین نے شرما کو مشورہ دیا کہ اعتراض سے قبل سوامی کی بات سن لیں۔ کورین نے یہ بھی کہا کہ سوامی نے سپریم کورٹ کے بعض ریمارکس کی بابت کہا ہے لیکن کسی کا نام نہیں لیا۔ کرسیٔ صدارت نے سوامی سے کہا کہ اپنا بیان جاری رکھیں، لیکن کسی کا نام نہ لیں۔ اس پر بی جے پی ایم پی نے کہا، ’’میں کسی کا نام نہیں لے رہا ہوں ماسوائے مہاتما گاندھی۔ میں کسی اور گاندھی کا نام نہیں لوں گا‘‘ جس کے ساتھ ہی بالخصوص سرکاری بنچوں میں قہقہے پھوٹ پڑے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گاندھی جی کی باقیات کا کوئی پوسٹ مارٹم نہ ہوا اور اس کے نتیجے میں فائر کی گئی گولیوں کی تعداد کے بارے میں تنازعہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ جہاں اخبارات نے کہا کہ اُن پر چار گولیاں چلائی گئیں، استغاثہ نے کہا کہ یہ تعداد تین تھی۔ سوامی اپنی تقریر مکمل نہ کرسکے کیونکہ اُن کا مقررہ وقت ختم ہوگیا اور وقفہ سوالات شروع کرلیا گیا۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے نائب صدر کانگریس راہول گاندھی سے کہا تھا کہ گاندھی جی کے قتل کیلئے آر ایس ایس کو موردِ الزام ٹھہرانے سے متعلق اپنے بیان پر معذرت خواہی کریں یا پھر مقدمہ کا سامنا کریں۔