انساں کا خون گائے سے سستا ہوا ہے آج
معیار اس زمانے میں کتنے بدل گئے
گاؤ دہشت گرد ‘ صدر جمہوریہ کی تشویش
ملک بھر میں گاؤ دہشت گردوں کی سرگرمیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ ان پر سماج کے ہر گوشے اور طبقے میں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی تھی ۔ عوام کی جانب سے ایک علامتی احتجاج منظم کیا گیا تھا جس کے بعد وزیراعظم اور کچھ مرکزی وزیر اس پر تبصرہ کیلئے مجبور ہوگئے تھے تاہم صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے بھی تشویش اور فکر کا اظہار کیا ہے ۔ صدر جمہوریہ نے ملک کے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ گاؤ دہشت گردوں کا متحدہ مقابلہ کریں۔ ملک بھر میں گاؤ دہشت گردوں کے ہجوم کی جانب سے بے گناہ اور معصوم نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کئے جانے کے واقعات کئی ریاستوں میں پیش آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھی اس مسئلہ پر لب کشائی کی گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے انسانی جانوںکے اتلاف پر افسوس ظاہر کرنے سے زیادہ گاؤ رکھشا کی اہمیت پر زیادہ زور دینے کی کوشش کی ہے ۔ اب صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اس پر جو تشویش کا اظہار کیا ہے وہ صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے ۔ صدر جمہوریہ کی جانب سے عموما عوامی سطح پر پیش آنے والے واقعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاتا اور نہ ریمارکس کئے جاتے ہیں لیکن پرنب مکرجی نے گاؤ دہشت گردوں کے حملوں اور بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکتوں پر لب کشائی کو ضروری سمجھا ہے جو سماج کے تئیں ان کی فکر اور اس طرح کی لاقانونیت پر ان کی تشویش کو ظاہر کرتا ہے ۔ انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ جب ہجوم بے قابو ہوجاتا ہے تو سماج کی بنیادیں متاثر ہوجاتی ہیں اور سماج کی بنیادی اقدار کی حفاظت کرنے کیلئے عوام کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے ۔ صدر جمہوریہ کی اس تشویش اور فکر کے بعد کم از کم بی جے پی زیرقیادت نریندر مودی حکومت کو اور ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ جب دوسرے گوشوں سے اس صورتحال پر تشویش ظاہر کی جا رہی تھی تو یہ کہا جارہا تھا کہ اس پر غیر ضروری ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے لیکن اب جبکہ صدر جمہوریہ نے خود اس پر اظہار خیال کیا ہے تو حکومت کو حالات کی سنگینی کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ کم از کم صدر جمہوریہ کے تبصرہ اور ریمارکس کو تو سیاسی عینک سے نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔
گذشتہ دنوں جب ملک کے 16 شہروں میں اس طرح ہجوم کے ہاتھوں بے گناہوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج منظم کیا گیا تو ایسا تاثر پیدا ہوا کہ حکومت نے اس پر کم از کم لب کشائی کو ضروری سمجھا ۔ اب صدر جمہورے پرنب مکرجی نے بھی عوام کو متحد ہو کر ہجوم کی اس طرح کی کارروائیوں کا متحدہ مقابلہ کرنے کی نصیحت کی ہے تو سماج کو اس نصیحت کو قبول کرکے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک سماج میں متحدہ طور پر اور مختلف طبقات کی جانب سے متحدہ طور پر اس طرح کی صورتحال سے مقابلہ کیلئے کمر نہیں کس لی جاتی اس وقت تک ان گاؤ دہشت گردوں کی کارروائیوں کو روکنے میں کامیابی کی امید کرنا فضول ہی ہوگا ۔ ویسے بھی جب سماج کی بنیادی اقدار کو خطرہ لاحق ہو تو اس کا جمہوری اور پر امن انداز میں دفاع کرنا سماج کے ہر فرد اور ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے ۔ ہمیں یہ ذمہ داری پوری کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں لا قانونیت کے جواب میں قانون کا سہارا لیتے ہوئے جمہوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے اس طرح کی وحشیانہ کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک حکومتوں کا سوال ہے وہ تو اپنے عزائم اور ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں جٹی ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت جو رد عمل ظاہر کر رہی ہے وہ گاؤ دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی کی بجائے ان حوصلہ افزائی کرنے کو زیادہ ضروری سمجھ رہی ہے ۔ حکومت ڈھکے چھپے انداز میںبالواسطہ طور پر ان کے حوصلے بلند کرنے میں ہی لگی ہوئی ہے ۔ حکومت کی خاموشی سے کم از کم یہی تاثر لیا جاسکتا ہے ۔
جب تک ہندوستان ایک آواز ہوکر ان وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف حرکت میں نہیں آئے گا اور صدر جمہوریہ کی نصیحت کے مطابق سماج کے بنیادی اقدار کی حفاظت کیلئے تگ و دو نہیں کی جائیگی اس وقت تک یہ حالات بدلنے ممکن نظر نہیں آتے ۔ جہاں حکومتوں کو اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر لا قانونیت کو فروغ دینے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کیلئے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے وہیںسماج کو بھی اپنے طور پر اپنافریضہ ادا کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔ جب تک سماج خود بیدار ہوکر حکومت کو خواب غفلت سے نہیں جگائیگا اس وقت تک حکومت سے کسی کارروائی کی امید بھی فضول ہی ہوسکتی ہے ۔ سماج اور حکومتیں جب تک لا قانونیت کو ختم کرنے کیلئے قانون کے مطابق کام نہیں کرینگی اس وقت تک حالات نہیں بدلیں گے اور یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت ہوگی ۔