خدا نے چیف منسٹر کو مسیحا کی حیثیت سے مامور کیا ہے ، ٹی آر ایس کے جلسہ عام سے جناب محمد محمود علی کا ادعا
حیدرآباد۔27اپریل ( سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ محمد محمود علی نے کہا کہ اقلیتوں اور کمزور طبقات کی بھلائی صرف کے سی آر کے ذریعہ ممکن ہے اور خدا نے کے سی آر کو ایک مسیحا کی حیثیت سے ان طبقات کی ترقی کیلئے مامور کیا ہے ۔ پریڈ گراؤنڈ سکندرآباد پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے محمود علی نے کے سی آر کے موافق اقلیت اقدامات کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے ایک مسلمان اور دلت کو ڈپٹی چیف منسٹرس کے عہدہ پر فائز کیا ہے ۔اس طرح کے سی آر نے سیکولرازم کی مثال قائم کی ۔ انہوں نے کہا کہ سنہرے تلنگانہ کی تشکیل اور ہر شہری کے چہرے پر نور بکھیرنا کے سی آر کا عہد ہے اور وہ یقیناً اس کی تکمیل کریں گے ۔ انہوں نے اقلیتوں اور کمزور طبقات سے اپیل کی کہ وہ کے سی آر کی قیادت کو مضبوط کریں ۔ انہوں نے شہر حیدرآباد کی ترقی اور مسلمانوں کی بھلائی کیلئے کے سی آر کی قیادت کو ناگزیر قرار دیا ۔ محمود علی نے کہا کہ تلنگانہ کی حکومت دراصل غریبوں اور کمزور طبقات کی حکومت ہے اور 100دن میں حکومت نے عوامی بھلائی کے 43فیصلے کئے ‘ جس کی مثال ملک کی کوئی دوسری ریاست پیش نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے ’شادی مبارک‘ آسرا پنشن اور دیگر فلائی اسکیمات کا حوالہ دیا اور کہا کہ حکومت نے غریب طبقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہ صرف پنشن کی رقم میں ایک ہزار روپئے تک اضافہ کیا بلکہ غریب لڑکیوں کی شادی کے موقع پر 51ہزار روپئے کی امداد فراہم کی ہیں ۔ محمود علی نے کہا کہ مسلمانوں کا دکھ درد صرف کے سی آر ہی سمجھ سکتے ہیں اور وہی ترقی کے ضامن ہیں ۔ کلکٹرس کانفرنس کے دوران چیف منسٹر نے غریبوں اور اقلیتوں کی بھلائی کیلئے عہدیداروں کو کئی ہدایات دی ہیں ۔ چیف منسٹر کو تلنگانہ کا مہاتما قرار دیتے ہوئے محمود علی نے کہا کہ گذشتہ 57برسوں میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ناانصافی کی گئی ۔ انہوں نے بتایا کہ غریبوں کو 125گز اراضی فراہم کرنے کی اسکیم پر عمل کیا جارہا ہے جس کے تحت 3.5لاکھ درخواستیں وصول ہوئی ہیں ۔ فوڈ سیکیورٹی کارڈس کی اجرائی کا مقصد غریبوں کو اناج فراہم کرنا ہے ۔ کانگریس اور تلگودیشم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے محمود علی نے کہا کہ کانگریس دھوکہ باز جماعت ہے اور اُس نے اقلیتوں کو ہمیشہ ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ چندرابابو نائیڈو نے کبھی بھی اقلیتوں کی بھلائی کے حق میں نہیں سوچا اور وہ سیکولر قائد نہیں ہیں ۔ اگر وہ سیکولر ہوتے تو آندھراپردیش کی کابینہ میں مسلم وزیر کو شامل کیا جاتا ‘ اگر وہ چاہتے تو کسی مسلمان کو قانون ساز کونسل کی رکنیت کے ساتھ کابینہ میں شامل کرسکتے تھے ۔