ہریش راؤ کی مقبولیت کھٹکنے لگی، سیاسی جانشین کے مسئلہ پر کے سی آر فیملی میں گھمسان
حیدرآباد ۔ یکم اکٹوبر (سیاست نیوز) مجوزہ اسمبلی انتخابات میں کیا کارگذار چیف منسٹر کے سی آر کو محفوظ اسمبلی حلقہ کی تلاش ہے جہاں سے وہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوسکیں؟ کے سی آر کا موجودہ اسمبلی حلقہ گجویل اُنھیں بھاری اکثریت دلانے میں ناکام ثابت ہوا ہے اور اطلاعات کے مطابق کے سی آر کی نظریں اب حلقہ اسمبلی سدی پیٹ پر ہیں جہاں سے اُن کے بھانجے ہریش راؤ 2008 ء سے مسلسل منتخب ہورہے ہیں۔ 2014 ء کے اسمبلی انتخابات میں ہریش راؤ نے 93,328 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے تلنگانہ اسمبلی میں ریکارڈ قائم کیا تھا جبکہ کے سی آر کو گجویل میں صرف 19391 ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔ اب جبکہ ٹی آر ایس میں ہریش راؤ کی مقبولیت کو لیکر سیاسی اُتھل پتھل عروج پر ہے، کے سی آر کے قریبی افراد اُنھیں مشورہ دے رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں وہ سدی پیٹ کا انتخاب کریں جہاں سے وہ سابق میں نمائندگی کرچکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ہریش راؤ کی ترقیاتی اور فلاحی سرگرمیوں نے اُن کی مقبولیت میں مزید اضافہ کردیا ہے اور مختلف مواضعات میں روزآنہ عوام کی جانب سے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے ہریش راؤ کے حق میں ووٹ دینے کا عہد کیا جارہا ہے۔ ایسے وقت جبکہ کے سی آر کے سیاسی جانشین کے مسئلہ پر پارٹی قائدین میں واضح طور پر پھوٹ دکھائی دے رہی ہے، منصوبہ بند انداز میں ہریش راؤ کو اسمبلی کے بجائے لوک سبھا منتقل کرنے کی حکمت عملی تیار کرلی گئی تاکہ کے ٹی آر کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ سیاسی جانشین کے انتخاب کا فیصلہ اگرچہ اسمبلی نتائج کے بعد ہوگا لیکن بتایا جاتا ہے کہ کے سی آر فیملی میں جانشین کے مسئلہ کو لیکر گھمسان جاری ہے اور ہریش راؤ کے حامی رشتہ دار اُن کی قربانیوں اور پارٹی کے لئے محنت کا حوالہ دے کر جانشین نہ سہی اُن کی موجودہ اہمیت کو برقرار رکھنے پر اصرار کررہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کے سی آر کو فوری طور پر جانشین کے انتخاب سے گریز کرنا چاہئے تاکہ پارٹی کو پھوٹ سے بچایا جاسکے۔ اطلاعات کے مطابق کے سی آر کے بعض رشتہ داروں کی اِس مسئلہ پر کے ٹی آر اور رکن راجیہ سبھا سنتوش کمار سے سخت بحث تکرار بھی ہوئی ہے جس کی اطلاع کارگذار چیف منسٹر تک پہونچی اور اُنھوں نے فارم ہاؤز میں تمام افراد خاندان کو طلب کرتے ہوئے معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ کے ٹی آر کے حق میں پارٹی سابق ارکان مقننہ اور سینئر قائدین کی اکثریت ہے کیوں کہ وہ کے سی آر کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔ ہریش راؤ کے حامی قائدین دبے الفاظ میں موجودہ صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔ ہریش راؤ کی اہمیت کم کرنے کے لئے کے سی آر کے قریبی مشیروں نے تجویز پیش کی کہ اگر چیف منسٹر گجویل کے بجائے سدی پیٹ سے مقابلہ کرتے ہیں تو ازخود ہریش راؤ کی عوامی مقبولیت کم ہوجائے گی۔ گجویل سے ہریش راؤ کے مقابلہ کی صورت میں اُنھیں سدی پیٹ کی طرح اکثریت حاصل نہیں ہوسکتی۔ 2014 ء میں تلنگانہ تحریک اور تلنگانہ جذبے کے عروج کے باوجود چندرشیکھر راؤ کو کامیابی کے لئے جدوجہد کرنی پڑی۔ گجویل میں تلگودیشم کے قائد پرتاپ ریڈی عوام میں کافی مقبول ہیں۔ وہ ہر دُکھ درد میں عوام کے درمیان دکھائی دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں تلنگانہ تحریک کے اثر کے باوجود عوام نے اُنھیں 36.48 فیصد ووٹ دیئے جبکہ کے سی آر کو 44.42 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران ایک مرحلہ پر پرتاپ ریڈی کی کامیابی کی اطلاعات گشت کرنے لگی تھیں جس سے پریشان ہوکر پارٹی نے ہریش راؤ کو گجویل کی ذمہ داری دی اور وہ سدی پیٹ چھوڑ کر گجویل میں کیمپ کیا تھا اور کے سی آر کی جیت میں اُن کا اہم رول رہا۔ کے سی آر کو جملہ 86,669 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ تلگودیشم کے پرتاپ ریڈی 67,303 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ پرتاپ ریڈی مجوزہ انتخابات میں مقابلے کی تیاری کررہے ہیں ایسے میں کے سی آر پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ اپنے حلقہ کو تبدیل کردیں۔ 2014 ء میں ہریش راؤ نے سدی پیٹ سے ایک لاکھ 8699 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ کانگریس کے سرینواس گوڑ کو صرف 15,371 ووٹ ملے تھے۔ سدی پیٹ تاریخی اہمیت کا حامل ہے جہاں سے کانگریس کے سینئر قائد مدن موہن نمائندگی کرچکے ہیں۔ 1985 ء میں کے سی آر تلگودیشم کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ اِس حلقہ سے منتخب ہوئے۔ 1989 ء 1994 ء اور 1999 ء میں وہ تلگودیشم کے ٹکٹ پر اِسی حلقے سے منتخب ہوئے۔ 2001 ء میں تلنگانہ تحریک کے آغاز کے بعد اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر کے سی آر سدی پیٹ حلقہ سے ٹی آر ایس کے ٹکٹ پر ضمنی چناؤ میں منتخب ہوئے۔ 2014 ء کے ضمنی چناؤ میں ہریش راؤ کو امیدوار بنایا گیا اور اُسی سال کے عام انتخابات میں دوبارہ کے سی آر نے مقابلہ کیا۔ 2008 ء سے اب تک ہریش راؤ اِس حلقہ کی مسلسل نمائندگی کررہے ہیں۔