مابعد الیکشن مرکز میں کانگریس کی تائید کا اشارہ ، تلنگانہ میں کانگریس کو کمزور کرنے کے بعد نئی چال
حیدرآباد 5 اپریل (سیاست نیوز) لوک سبھا انتخابات کے بعد کیا تلنگانہ میں سیاسی صورتحال تبدیل ہوگی؟ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ جنھوں نے تلنگانہ میں کانگریس کو کمزور کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی، اُنھوں نے اچانک اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے اِس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر مرکز میں کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ایک قومی ٹی وی چیانل کو دیئے گئے انٹرویو میں کے سی آر نے یو پی اے صدرنشین سونیا گاندھی اور صدر کانگریس راہول گاندھی کی ستائش کی۔ انٹرویو سے سیاسی مبصرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کے سی آر کا جھکاؤ کانگریس کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ بعض دیگر مبصرین اِسے کے سی آر کی سیاسی مصلحت پسندی سے تعبیر کررہے ہیں تاکہ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس زیراثر علاقوں میں ٹی آر ایس کے حق میں بہتر مظاہرہ کو یقینی بنایا جاسکے۔ کانگریس کے حامیوں کو خوش کرنے کے لئے ہوسکتا ہے کہ کے سی آر نے نئی چال چلی ہو۔ ٹی وی انٹرویو میں کے سی آر نے سونیا گاندھی کو معاملہ فہم اور خاموش شخصیت قرار دیا جبکہ راہول گاندھی کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی طور پر باشعور ہوچکے ہیں۔ تاہم مزید ترقی کی ضرورت ہے۔ کے سی آر کے یہ ریمارکس اُن کے سابق میں کئے گئے تبصروں سے بالکل مختلف ہیں جس میں اُنھوں نے سونیا گاندھی کو شیطانی طاقت اور راہول کو بڑا احمق قرار دیا تھا۔ کے سی آر نے نریندر مودی اور بی جے پی کو یہ کہتے ہوئے نشانہ بنایا کہ انکم ٹیکس، انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اور دیگر کسی محکمہ کے دھاوے بی جے پی قائدین کے خلاف کیوں نہیں ہورہے ہیں۔ یہ ادارے کیوں اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنارہے ہیں۔ اُنھوں نے حیرت کا اظہار کیاکہ کوئی بھی بی جے پی قائد انکم ٹیکس اور ای ڈی کی نظر میں نہیں ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے لئے کانگریس اہم حریف جماعت ہے اور اسمبلی انتخابات کے بعد کے سی آر نے کانگریس پارٹی کو آپریشن آکرش کے ذریعہ بھاری نقصان پہنچایا۔ اسمبلی اور کونسل کے ارکان کو انحراف کی کامیاب ترغیب دی گئی۔ کانگریس پارٹی جس نے 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، وہ واحد ہندسہ والی پارٹی بن چکی ہے۔ اُس کے 11 ارکان اسمبلی نے ٹی آر ایس میں شمولیت کا اعلان کردیا اور بتایا جاتا ہے کہ مزید بعض ارکان شمولیت کے لئے تیار ہیں۔ ایسی صورت میں اسمبلی میں کانگریس مسلمہ اپوزیشن کے موقف سے محروم ہوجائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لوک سبھا انتخابات کے بعد کانگریس کو ٹی آر ایس کی ضرورت پڑے گی تو کیا کانگریس پارٹی تلنگانہ میں منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کا ارادہ ترک کردے گی؟ مبصرین کا ماننا ہے کہ کانگریس کو تشکیل حکومت کے لئے ٹی آر ایس کی تائید اگر ضروری ہے تو وہ قومی مفاد کو ترجیح دے گی۔ ایک سیاسی قائد نے کہاکہ لوک سبھا نتائج کے بعد کچھ بھی ممکن ہے کیوں کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ کے سی آر کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت میں 2004 ء تا 2009 ء مرکزی وزیر کی حیثیت سے شامل رہ چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ لوک سبھا نتائج کے بعد مرکز کی تازہ ترین صورتحال کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟