علحدہ چناؤ کی صورت میں ٹی آر ایس کو نقصان، پارٹی قائدین کے درمیان کے سی آر کی رائے
حیدرآباد ۔ 3 ۔ جولائی (سیاست نیوز) اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کے سلسلہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے پارٹی قائدین میں الجھن پائی جاتی ہے۔ کے سی آر اسمبلی کے مقررہ وقت سے قبل انتخابات کے حق میں ہے لیکن قائدین اس کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ سابق کے تجربہ کی طرح ٹی آر ایس کو بھی وسط مدتی چناؤ سے فائدہ کے بجائے کہیں نقصان نہ ہوجائے۔ اطلاعات کے مطابق چیف منسٹر نے اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا کے وسط مدتی چناؤ سے جوڑ دیا ہے ۔ اگر نریندر مودی حکومت لوک سبھا کے انتخابات کا اعلان کرتی ہے تو ایسی صورت میں تلنگانہ بھی اسمبلی کی تحلیل اور چناؤ کیلئے الیکشن کمیشن سے سفارش کرے گا ۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے بیک وقت انتخابات کے سلسلہ میں لاء کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے رائے حاصل کی ہے۔ قومی اور علاقائی جماعتیں اس مسئلہ پر منقسم ہے۔ بیشتر جماعتوں کا دونوں ایوانوں کے ایک ساتھ انتخابات پر اختلاف ہے۔ کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے پہلے ہی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات کی مخالفت کی ہے۔ بی جے پی ایک ملک ایک چناؤ کے نعرہ کے ساتھ اس تجویز پر ریاستوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے بااعتماد رفقاء سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر لوک سبھا کے انتخابات مقررہ وقت سے پہلے ہوں گے تو وہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سفارش کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ علحدہ انتخابات کی صورت میں ٹی آر ایس کو نقصان ہوسکتا ہے۔ اگر نریندر مودی حکومت لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کی تجویز سے دستبردار ہوجائے تو تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات بھی مقررہ وقت پر آئندہ سال اپریل میں ہوں گے ۔ مختلف ذرائع سے کئے گئے سروے کے مطابق تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا موقف اس قدر مستحکم نہیں جو گزشتہ سال تک تھا۔ ایک طرف کانگریس تو دوسری طرف بی جے پی اپنے موقف کو مستحکم کر رہی ہے۔ کے سی آر کا خیال ہے اگر لوک سبھا کے وسط مدتی چناؤ میں بی جے پی کا مظاہرہ ریاست کے علاوہ ملک بھر میں بہتر ہو تو اس کا اثر اسمبلی انتخابات پر ضرور پڑے گا۔ لہذا وہ کانگریس اور بی جے پی سے ایک ہی وقت میں مقابلہ کرنے کے خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پارٹی قائدین اور کیڈر کو وسط مدتی انتخابات کیلئے تیار رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ کانگریس نے جس انداز میں حکومت کے خلاف مہم چھیڑدی ہے، اس کا اثر ٹی آر ایس کیڈر پر پڑا ہے۔ اسی طرح بی جے پی کی جنا چیتنیہ یاترا سے ٹی آر ایس قائدین خوفزدہ ہے۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر بی جے پی کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا مزید موقع دیا گیا تو نہ صرف لوک سبھا بلکہ اسمبلی میں بھی اس کا مظاہرہ بہتر ہوگا۔ بی جے پی کے علاوہ آر ایس ایس کیڈر دیہی علاقوں میں پہلے ہی سرگرم ہوچکا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر رائے دہندوں کو تقسیم کرتے ہوئے ہندوؤں سے بی جے پی کی تائید کا حلف لیا جارہا ہے ۔ ان حالات میں ٹی آر ایس کو دیہی سطح پر خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ کے سی آر کو بیک وقت کانگریس اور بی جے پی کی پیشقدمی کو روکنا ہے۔ قیادت کی سطح پر یہ رائے ہے تو دوسری طرف قائدین اور کیڈر میں اسمبلی کے وسط مدتی انتخابات کی مخالفت دیکھی جارہی ہے ۔ قائدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ پارٹی کیلئے خودکشی ثابت ہوگا۔ سابق میں این چندرا بابو نائیڈو نے 2014 ء میں 7 ماہ قبل اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ تجربہ مہنگا ثابت ہوا اور دوبارہ اقتدار کے بجائے تلگو دیشم حکومت زوال سے دوچار ہوگئی ۔ تروپتی میں نکسلائٹس کی جانب سے چندرا بابو نائیڈو پر حملے کے بعد امید کی جارہی تھی کہ وسط مدتی انتخابات بابو کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کریں گے لیکن عوام نے کانگریس کو اقتدار سونپ دیا۔ ٹی آر ایس قائدین خوفزدہ ہیں کہ کہیں 2004 ء کا تلگو دیشم کا تجربہ ٹی آر ایس پر صادق نہ آجائے کیونکہ عوام مقررہ مدت سے قبل انتخابات کو پسند نہیں کرتے ۔ عوام نے جب پانچ سالہ میعاد کیلئے منتخب کیا ہے تو اس کی تکمیل کی جانی چاہئے ۔ بعض سینئر قائدین نے کے سی آر سے کہا کہ حکومت کی کئی اسکیمات پر عمل آوری ابھی باقی ہے۔ لہذا وسط مدتی انتخابات کا تجربہ نہ کیا جائے۔ الغرض اسمبلی کے انتخابات کا انحصار لوک سبھا کے انتخابات پر رہے گا۔