کے سی آر ۔ نائیڈو کی جنگ

ہمیں احساس تھا بس ہم بڑے ہیں
نہ جانے کب سے وہ بازو کھڑے ہیں
کے سی آر ۔ نائیڈو کی جنگ
ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعدتلنگانہ اورآندھرا پردیش دو الگ ریاستیں وجود میں آگئیں ۔ تلنگانہ میں ٹی آرایس کو اور آندھرا میں تلگودیشم پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ دونوں ہی حکومتیں اپنی اپنی ریاست کو ترقی دینے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ کام کرینگی ۔ دونوں ریاستوں کے مابین جومتنازعہ مسائل اور اختلافات ہیں انہیں بھی باہمی مشاورت سے حل کیا جائیگا تاہم یہ توقعات دھری کی دھری رہ گئیں اور دونوں ریاستوں میں برسر اقتدار جماعتیں ابھی تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی ہو کہ تلگودیشم پارٹی ہو دونوں ہی ایک دوسرے کوسیاسی اعتبار سے پیچھے چھوڑنے اور نقصان پہونچانے کے در پہ اتر آئی ہیں۔ تلنگانہ قانون سازکونسل کی چھ نشستوں کیلئے انتخابات نے ان اختلافات کو مزید ہوا دیدی ۔ ٹی آر ایس یہاں پانچ نشستیںحاصل کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی تھی تو تلگودیشم پارٹی بھی ایک نشست پر کامیابی کو یقینی بناتے ہوئے اپنے سیاسی وجود کو منوانے کی خواہاں تھی ۔ دونوں جماعتوں کی اسی کوشش نے ایک ایسی حقیقت کو منظر عام پر لادیا جس کے تعلق سے پہلے ہی سے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات موجود تھے ۔ تلگودیشم کے رکن اسمبلی ریونت ریڈی کو ٹی آر ایس کے رکن اسمبلی اسٹیفنسن کو پانچ کروڑروپئے رشوت کا وعدہ کرنے اور پچاس لاکھ روپئے پیشگی ادا کرنے کے الزام میں گرفتارکر لیا گیا ۔ اس کارروائی کو محکمہ انسداد رشوت ستانی کی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے جبکہ تلگودیشم کا الزام ہے کہ یہ ایک سازش ہے جس کا مقصد تلگودیشم کو نقصان پہونچانا اور اس کے قائدین اور کارکنوں کو خوفزدہ کرنا ہے ۔ ریونت ریڈی کی گرفتاری اور بعد میں ہوئے انکشافات کے بعد یہ سیاسی جنگ اب باضابطہ لڑائی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور اب دونوں قائدین حیدرآباد پر حق کے تعلق سے دعوے اورجوابی دعوے کرنے پر اتر آئے ہیں۔ تلگودیشم مسلسل یہ دعوی کرتی رہی ہے کہ حیدرآباد کو اس نے فسادات سے پاک کیا ‘ یہاں نظم و قانون کو بحال کیا اور شہر کی ترقی کو یقینی بنایا ۔ ٹی آر ایس کا جواب یہ ہے کہ حیدرآباد تلگودیشم کی جاگیر نہیں ہے اور کوئی بھی اس کی ترقی پر تنہا تمغہ کارکردگی حاصل نہیں کرسکتا ۔
جہاں تک نوٹ برائے ووٹ اسکام کا تعلق ہے یہ پہلا معاملہ نہیںہے جومنظر عام پر آیا ہے ۔ اس سے قبل نرسمہار اؤ کے دور حکومت میںارکان پارلیمنٹ کو خریدنے کیلئے بھاری رقومات کی پیشکش کے الزامات سامنے آئے تھے ۔ بعد یو پی اے حکومت کی پہلی معیاد میں امریکہ کے ساتھ نیوکلئیر معاہدہ کے بعد خود ایوان پارلیمنٹ میں نوٹ پیش کئے گئے تھے جو مبینہ طور پر رشوت کے طور پر ادا کئے گئے تھے ۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی کے قائدین نے بھی دوسری جماعتوں پر بھاری رقومات کے لالچ دینے کے الزام عائد کئے تھے ۔ اس طرح یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سیاسی جماعتوں کی توڑ جوڑ میں رقومات کا چلن ہوا ہے ۔ تاہم اس مسئلہ میں ایک ویڈیو بھی سامنے آگیا ہے اور ایک آڈیو جاری کرتے ہوئے یہ ادعا کیا گیا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو نے اسٹیفنسن سے بات کرکے انہیں رقم قبول کرنے ان کی پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دی تھی ۔ اس سے یقینی طور پر سیاسی قائدین کا امیج متاثرہوا ہے ۔ اب اسی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش میں دو سیاسی قائدین کے اختلافات ‘ باہمی عداوت کی وجہ بنتے جا رہے ہیں۔ چندر شیکھر راؤ اور چندرا بابو نائیڈو کے مابین جو لفظی تکرار شروع ہوئی ہے وہ عملی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے اور اس میںسارا نقصان شہر حیدرآباد کا ہوگا ۔ یہ درست ہے کہ حیدرآباد دس سال تک کیلئے دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہے اور کوئی ایک حکومت اس پر اپنا حق یا ادعا کم از کم دس برس تک نہیںجتا سکتی ۔ لیکن سیاسی اختلافات کی وجہ سے شہر کو نشانہ بنانے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔
حیدرآباد پر دونوں حکومتوں کے دعووں سے قطع نظر دونوں حکومتوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ سیاست کرنے کیلئے بہت وقت ہے ۔ دونوں ریاستیں نئی ہیں اور انہیں سنبھل کر اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے پر توجہ دینا چاہئے ۔ ہر جماعت کو اپنے کام کے ذریعہ دوسری جماعت کو نیچا دکھانے کا کام کرنا چاہئے ۔ صرف زبانی الزامات ‘ دھمکیوں یا جوابی دھمکیوں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ ہر جماعت کے دوسری جماعت سے نظریات مختلف ہوتے ہیں اور سیاسی اختلافات عام بات ہیں لیکن ان اختلافات کو شخصی عداوت کا لڑائی میں تبدیل کردینا اچھی مثال نہیں ہوسکتی جس سے ہر دو فریقین کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔