’’کے سی آر حکومت میں نیا اسکام‘‘ سی ایم ریلیف فنڈ کے98% استفادہ کنندگان سے حکومت ہی لاعلم

وزیرتلنگانہ کے ٹی آر کا بلند بانگ دعویٰ کھوکھلا،عہدیداروں ، بروکرس اور ہاسپٹلس کی ملی بھگت،سی آئی ڈی تحقیقات ادھوری

حیدرآباد ۔ 31۔ اکتوبر (سیاست نیوز)کے سی آر حکومت میں پراجکٹس کی تعمیر کے نام پر بڑے پیمانہ پر دھاندلیوں اور سرکاری خزانہ سے بھاری لوٹ کے بعد اب غریبوں کیلئے امداد سے متعلق چیف منسٹر ریلیف فنڈ کو بھی اسکام سے نہیں بچایا جاسکا۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد چیف منسٹر ریلیف فنڈ میں کروڑہا روپئے کی لوٹ کا اسکام منظر عام پر آیا ہے جس کی تحقیقات حکومت نے سی بی سی آئی ڈی کے سپرد کی ہے۔ حکومت ایک طرف 2015 تا 2018 ء کے درمیان چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے تحت ایک لاکھ 20 ہزار خاندانوں میں 800 کروڑ روپئے کی اجرائی کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن جن افراد کو یہ رقم جاری کی گئی ، ان کی تفصیلات حکومت کے پاس دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلہ میں داخل کردہ آر ٹی آئی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مستردکردیا گیا کہ سی ایم ریلیف فنڈ کی تفصیلات آر ٹی آئی کے دائرہ میں نہیں آتی۔ اس سے قبل جون 2014 ء تا اگست 2015 چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے تحت 86 کروڑ 60 لاکھ روپئے جاری کئے گئے۔ اس سلسلہ میں 12,462 چیکس کی اجرائی عمل میں آئی لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس صرف 182 چیکس کی اجرائی کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں جو ایک کروڑ 69 لاکھ روپئے پر مشتمل ہے۔ باقی استفادہ کنندگان کے صرف نام درج ہیں، ان کی کوئی تفصیلات ریکارڈ میں موجود نہیں۔ اس طرح ایک سال کے دوران چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے تحت جاری کردہ رقم کے 98.5 فیصد استفادہ کنندگان کی تفصیلات حکومت کے پاس موجود نہیں۔ اس طرح چیف منسٹر ریلیف فنڈ ایک بڑا اسکام بن چکا ہے۔ مخالف کرپشن جہد کار نے 2015 ء میں محکمہ مال میں آر ٹی آئی درخواست داخل کی ۔ حکام نے 700 صفحات پر مشتمل جواب دیا جس میں 84.94 کروڑ کی اجرائی کے استفادہ کنندگان کی تفصیلات موجود نہیں ہے۔ واضح رہے کہ چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے ذریعہ سماج کے غریب تر افراد کو علاج و معالجہ کیلئے امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آفات سماوی ، حادثات یا پھر تشدد کے واقعات میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں کے افراد خاندان کو امداد فراہم کی جاتی ہے۔ وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے جاریہ سال اپریل میں ٹوئیٹر پر لکھا تھا کہ گزشتہ 46 ماہ کے دوران چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے ذریعہ ایک لاکھ 20 ہزار خاندانوں میں 800 کروڑ روپئے جاری کئے گئے ۔ ان کے اس دعوے کے بعد آر ٹی آئی درخواست داخل کرتے ہوئے 800 کروڑ کی تفصیلات طلب کی گئیں لیکن اس درخواست کو محکمہ مال کی جانب سے مسترد کردیا گیا ۔ محکمہ مال چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے امور کی نگرانی کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دواخانوں ، بروکرس اور عہدیداروں کی ملی بھگت کے ذریعہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ اسکام جاری ہے۔ کارپوریٹ ہاسپٹلس کی ریونیو عہدیداروں سے ملی بھگت ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں من مانی بلز کو منظور کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر ریلیف فنڈ کیلئے سفارش کرنے والے بعض عوامی نمائندے بھی کمیشن میں حصہ دار ہوتے ہیں ۔ حقیقی مستحق شخص کو بمشکل 50 فیصد رقم پہنچ پاتی ہے جبکہ باقی رقم ہاسپٹلس ، بروکرس اور عہدیداروں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس بات کی شکایت ملی ہے کہ ایک ہی چیک کئی افراد کو جاری کیا گیا ہے۔ چیف منسٹر ریلیف فنڈ اسکام کے حقائق کے منظر عام پر لانے کیلئے حیدرآباد ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست داخل کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جنوری 2016 ء میں چیف منسٹر کے سی آر نے اسکام کی جانچ سی بی سی آئی ڈی کے سپرد کی تھی جس نے اپنی ابتدائی رپورٹ حکومت کو پیش کردی ۔ تاہم ابھی تک دواخانوں سے رقومات کی ریکوری کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سی بی سی آئی ڈی نے 68 کیسس میں 36 لاکھ روپئے کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی جن میں بوگس میڈیکل بلز داخل کئے گئے تھے ۔ مارچ 2016 ء میں سی بی سی آئی ڈی نے اسکام کے سلسلہ میں 10 بروکرس کو گرفتار کیا تھا۔ عہدیداروں نے اسکام میں 112 خانگی افراد کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی جن میں 21 بروکرس ہیں۔ سی آئی ڈی نے 10 افراد کو گرفتار کیا جبکہ باقی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آؤٹ سورسنگ ملازمین جو بلنگ سیکشن میں کام کرتے ہیں، ان کے علاوہ آروگیہ مترا کے ملازمین اور بروکرس کی نشاندہی کی گئی۔ شہر کے مضافاتی علاقوں میں واقع ہاسپٹلس کے جعلی میڈیکل بلز داخل کرتے ہوئے رقم حاصل کی گئی ۔ حیدرآباد کے علاوہ کریم نگر ، نلگنڈہ ، ورنگل اور نظام آباد کے ہاسپٹلس میں بھی اس طرح کی دھاندلیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ سی بی سی آئی ڈی رپورٹ منظر عام پر لائیں اور خاطیوں کو بے نقاب کریں۔ اسمبلی انتخابات سے عین قبل چیف منسٹر ریلیف فنڈ کا اسکام ٹی آر ایس کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔