کیا ، سڑکوں پر کچرا گرانے والی بلدی گاڑیوں پر بھی جرمانہ ہوگا ؟

شہر کو صاف ستھرا رکھنے خصوصی منصوبہ کی ضرورت ، عہدیداروں میں شعور کی بیداری ناگزیر
حیدرآباد ۔ 26 ۔ جون : حکومت اور بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کا اعلان کیا ہے جب کہ حقیقت میں دیکھا جائے تو حیدرآباد پہلے ہی سے ہر لحاظ سے عالمی درجہ کا شہر ہے ۔ لیکن کچھ اداروں کی غفلت حکام و حکمرانوں کے تعصب کے نتیجہ میں شہر کے مخصوص حصوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ خاص طور پر صفائی کے معاملہ میں بلدیہ نے ہمیشہ مجرمانہ غفلت برتی ہے ۔ حال ہی میں کمشنر بلدیہ مسٹر سومیش کمار نے جامباغ اور دیگر علاقوں کے دورہ کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ سڑکوں پر کچرا پھینکنے والے دکانات و تاجرین پر 20 ہزار روپئے جرمانہ عائد کیا جائے گا ان کے اس اعلان پر تجارتی برادری میں بے چینی پھیل گئی ۔ پھر کل ہی مئیر جی ایچ ایم سی ماجد حسین نے بھی واضح طور پر کہا کہ سڑکوں پر کچرا پھینکنے یا گرانے والی گاڑیوں اور ٹرکس مالکین کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے گی ۔ کمشنر بلدیہ اور مئیر بلدیہ کے ان اعلانات کو بہت اچھے اعلانات کہا جاسکتا ہے لیکن فکر مند شہریوں کا خیال ہے کہ پہلے بلدیہ میں اور کچرا نکاسی سے متعلق اس کے نظام میں بہتری لانی چاہئے ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں جتنے کوڑے دان ہیں ہمیشہ ان سے باہر کچرا پڑا رہتا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں کوڑے دان چھوٹے ڈمپنگ یارڈ میں تبدیل ہوگئے ہیں ۔ اب شہری یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ بلدیہ خانگی گاڑیوں اور ٹرکس کو سڑکوں پر کچرا ڈالنے یا گرانے کی صورت میں جرمانے عائد کرے گی لیکن کیا بلدیہ کے اس اقدام کا اطلاق خود بلدیہ کی گاڑیوں پر ہوگا ؟ اس لیے کہ شہر میں کچرا کی نکاسی کرنے کے لیے جملہ 564 گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں ان میں 458 بلدیہ کی اپنی ہیں اور 106 گاڑیاں اس نے کرایہ پر حاصل کر رکھی ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کچرا کی نکاسی کے لیے جی ایچ ایم سی نے 44 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے حکومت کی منظوری بھی حاصل ہوگئی ہے ۔ مئیر بلدیہ اور کمشنر بلدیہ کے علاوہ دیگر عہدیدار اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی سڑک سے بلدیہ کے کچرا کی گاڑیاں گذرتی ہیں تو ماحول میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے ۔ کچرا کی بدبو سے لوگوں کا حال برا ہوجاتا ہے ۔ یہ گاڑیاں اسی پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ ڈمپنگ یارڈ تک پہنچتے پہنچتے نصف سے زیادہ کچرا سڑکوں پر گراتی جاتی ہیں ۔ ایسے میں کمشنر بلدیہ سومیش کمار اور مئیر بلدیہ ماجد حسین کیا بلدی گاڑیوں پر بھی 20 ہزار کا جرمانہ عائد کریں گے ؟ بلدیہ کے خلاف بھی فوجداری کارروائی کریں گے ؟ اکثر شہریوں کا یہی کہنا ہے کہ بلدیہ کی کچرا نکاسی گاڑیوں پر کوئی کوور Cover چڑھانا چاہئے جس سے کچرا باہر نہیں گرے گا ساتھ ہی ماحول میں تعفن بھی نہیں پھیلے گا ۔ جی ایچ ایم سی نے دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں کچرا کی موثر نکاسی کے لیے مزید 750 کوڑے دان حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کے لیے 2.67 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں ۔ بلدیہ کا یہ اقدام بہت اچھا ہے لیکن اگر کوڑے دانوں سے کچرا اس طرح گرتا رہے تو اطراف و اکناف رہنے والے عوام کی صحت بھی گرسکتی ہے ۔ واضح رہے کہ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں گھر گھر پہنچ کر کچرا جمع کرنے کے لیے 5638 رکشے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان میں سے تقریبا 2700 رکشوں کی حالت بالکل تباہ ہے اس لیے بلدیہ نے کچرا کی موثر نکاسی کو یقینی بنانے کے لیے 1500 نئے رکشے حاصل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق جی ایچ ایم سی کے حدود میں یومیہ 5000 تا 8000 ٹن کچرا نکلتا ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بلدیہ لاوارث میتوں کی تجہیز و تکفین کا کام بھی اپنے ذمہ دلینے کی خواہاں ہے لیکن ماضی میں ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جہاں لاوارث مسلم میتوں کی پورے احترام کے ساتھ تجہیز و تکفین کی بجائے انہیں جلا دیا گیا تھا ۔ اس معاملہ میں مسلمانوں کی تشویش کو دیکھتے ہوئے روزنامہ سیاست نے ملت فنڈ سے لاوارث مسلم نعشوں کی تجہیز و تکفین کا عمل شروع کیا اور آج کی تاریخ تک شہر کے مختلف قبرستانوں بالخصوص کوکٹ پلی کے قبرستان میں تدفین عمل میں لائی گئیں ۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ مسلم نعشوں کی بے حرمتی پر ایک طرح سے روک لگ گئی اور دوسرے ورثا کو اطمینان بھی ہوا کہ ان کے جس عزیز کو لاوارث سمجھ کر دفن کیا گیا اس کی پورے اسلامی طریقہ سے تجہیز و تکفین عمل میں آئی ۔ بلدیہ لاوارث ہندو نعشوں کی آخری رسومات کے لیے فی نعش 700 روپئے ادا کرتی ہے لیکن مسلم لاوارث نعشوں کی تجہیز و تکفین کے لیے ادارہ سیاست کوئی رقم نہیں لیتا بلکہ ملت فنڈ سے فی نعش 2500 روپئے دئیے جاتے ہیں ۔ اس سے قبل بھی وقف بورڈ نے مسلم لاوارث نعشوں کی تجہیز و تکفین کا اعلان کیا تھا جو صرف اعلان ہی ثابت ہوا اگر بلدیہ لاوارث مسلم نعشوں کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرتی ہے تو یہ اچھا ہوگا لیکن اس کے عہدیداروں کو ماضی کے تجربات بھی ذہن نشین رکھنے ہوں گے ۔ اسی لیے ہمارے شہر میں ایک محاورہ بہت معقول ہے ۔۔