کمسن بچوں کی شادیوں پر پابندی مسلم پرسنل لاء پر بھی اطلاق

2006ء کا قانون، لڑکیوں کی بھلائی کے مقصد پر مبنی، مدراس ہائیکورٹ
مدورائی ۔ یکم ؍ اپریل (سیاست ڈاٹ کام) مدراس ہائیکورٹ نے کہا ہیکہ بچوں کی شادی پر امتناع مسلم پرسنل لاء کے خلاف نہیں ہے اور موخرالذکر پر اس کا اطلاق ہوگا کیونکہ یہ کمسن لڑکیوں کی بھلائی کیلئے وضع کیا گیا ہے۔ اس عدالت نے عوامی مفاد کے تحت دائر کردہ ایک درخواست کو خارج کردیا جس میں حکومت کو یہ ہدایت دینے کی استدعا کی گئی تھی کہ وہ 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر امتناع کیلئے 2006ء میں نافذ قانون پوکما کے استعمال کے ذریعہ ایسی شادیوں کو نہ روکے جو مسلم پرسنل لاء کے مطابق کی جاتی ہیں۔ درخواست گذار کے مطابق مسلم پرسنل لاء 15 اور 18 سال کی درمیانی عمر کی لڑکیوں کی اجازت دیتا ہے۔ جسٹس ٹاملوانن اور جسٹس وی ایس روی پر مشتمل ایک ڈیویژن بنچ نے گذشتہ روز اپنے حکم میں کہا کہ ’’بچوں کی شادی پر امتناع کا قانون، مسلم پرسنل لاء کے خلاف نہیں ہے۔ یہ قانون کمسن بچیوں کی بھلائی کیلئے وضع کیا گیا ہے جس کا اطلاق پرسنل لاء پر بھی ہوتا ہے۔ اس قانون سے بچیوں کی تعلیم اور اختیارات کے حصول میں مدد ملتی ہے‘‘۔ سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے لیڈر محمد عباس نے مفاد عامہ کی ایک درخواست دائر کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ سوشیل ویلفیر آفیسر کے اقدام کو چیلنج کیا تھا جنہوں نے مہاراجہ پورم گاؤں میں سید ابوطاہر کی 16 سالہ لڑکی کی شادی کو روک دیا تھا اور کمسن دلہن کو چائیلڈ ویلفیر کمیٹی کی تحویل میں دیدیا تھا۔ کمسن مسلم لڑکیوں کی شادی کے مسئلہ پر مدراس ہائیکورٹ نے دوسری مرتبہ ایسا فیصلہ کیا ہے۔ بعض اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ کمسن لڑکیوں کی شادی پر امتناع مذہبی معاملہ میں مداخلت ہوگی۔