سید زبیر ہاشمی، معلم جامعہ نظامیہ
اﷲ رب العزت کلام مجید میں ارشاد فرما رہے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھیں جو صبح و شام اپنے پروردگار کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کیلئے کرتے ہیں، اور کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی آنکھیں ان سے تجاوز کرکے دنیاوی زندگی کی رونق کی طرف بڑھنے لگیں‘‘ {الکہف}
مذکورہ آیت پاک کے ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرایا جارہا ہے کہ بعض لوگ جن کو اﷲ رب العزت دنیاوی اعتبار سے کوئی مقام عطا فرمادیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اﷲ رب العزت کسی کو مال دیدیا، عہدہ دیدیا، کوئی بڑا منصب عطا کردیا یا شہرت دیدیا۔ اب یہ لوگ عمومی طور پر دوسرے قسم کے لوگ یعنی ضعیف کمزور قسم کے لوگوں کو کمتر، حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ تحقیرانہ برتاؤ اختیار کرتے ہیں۔ ان کو آگاہ کرنے کے لئے یہ بتلایا گیا ہے کہ لوگ اگرچہ مالی اعتبار سے کمزور ہیں، جسمانی اعتبار سے ضعیف و نحیف ہیں، اور بظاہر وہ ڈھیلے ڈھالے نظر آرہے ہیں تو ان کے بارے میں یہ ہر گز خیال مت کرنا کہ وہ حقیر ہیں۔ کیونکہ پتہ نہیں کہ وہ لوگ رب تبارک وتعالیٰ کے نزدیک تم سے زیادہ کہیں آگے نہ بڑھ جائیں۔ یہ نہ سوچیں کہ فلاں شخص غریب، فقیر، کمزور، معمولی قسم کا ہے اس کی طرف دیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور خیال رکھنا کہ صرف مالداروں کی طرف دیکھنا، ان سے ملاقات کرنا اور ان کے ساتھ روابط رکھنا فائدہ مند کام ہے یہ بالکلیہ غلط بات ہے۔
حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا جو رابطہ و تعلق ہے کونسا مسلمان ایسا ہے جو اس بات سے واقف نہ ہو، سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ رب تبارک وتعالیٰ کا حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بہت زیادہ گہرا رابطہ ہے۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کو ساری کائنات میں سب سے زیادہ اپنا چہیتا اور پسندیدہ بنایا ہے۔ اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے جیسا کائنات میں کوئی اور ہے ہی نہیں۔ قرآنی آیات مبارکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوصاف جمیلہ و حمیدہ سے بھری پڑی ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں خالق کائنات کی طرف سے ارشاد ہورہا ہے ’’انا أرسلنک شاہدا و مبشرا و نذیرا ٭ وداعیا الی اﷲ باذنہ و سراجا منیرا۔ ترجمہ ’’بیشک ہم نے آپ کو شاہد اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور اﷲ تعالیٰ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے‘‘ {سورۃ الأحزاب آیۃ ۴۵ اور ۴۶}
بتلایا گیا ہے کہ غریب مسکین کو کمتر سمجھ کر ان کو حقیر جاننا یہ بہت بری بات ہے کیونکہ ایسے غریب اور مسکین لوگوں کی بارگاہ رب العزت میں بڑی فضیلت ہے۔ اصحاب حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام میں ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔ ایک طرف حضرت عثمان غنی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہما وغیرہ جیسے مالدار تھے تو دوسری طرف حضرت بلال حبشی، صہیب رومی رضی اﷲ عنہما وغیرہ بھی تھے۔ جن کے متعلق یہ بتلایا گیا ہے کہ دو دو تین تین دن بھوکے رہتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ کفار وُ رؤسائے مکہ مکرمہ آقائے دوجہاں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور یہ کہنے لگے کہ ہم آپ کے پاس آنے کیلئے تیار ہیں، آپ کی بات سننے کو بھی تیار ہیں مگر اُس وقت جبکہ آپ ان غریب و مسکین لوگوں کو اپنے پاس بیٹھنے سے روکدیں، کیونکہ ان کے ساتھ بیٹھنا ہماری شان کے خلاف ہیں، ہماری شان میں فرق آجاتا ہے اس لئے آپ ان غریبوں کو اپنی مجلس سے دور کردیں اور ہمارے لئے ایک الگ مجلس مقرر کریں تو ہم آپ کے پاس آکر بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر ان کفار کی بات مان لیجاتی تو ہوسکتا تھا کہ دین کی باتیں سن کر ان کفار رؤسائے مکہ کی اصلاح ہوجائے۔
اگر ہم جیسے ہوتے تو ان کفار کی بات کو مان لیتے، لیکن بات تھی اصول کی، اسی لئے رب تبارک وتعالیٰ کی طرف سے فورًا حکم ہوا کہ ’’اور ان لوگوں کو دور مت کیجئے جو اپنے رب تبارک وتعالیٰ کو صبح و شام پکارتے رہتے ہیں‘‘ {سورۃ الانعام، ۵۲}
چنانچہ حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ حق کی طلب لے کر آنا چاہتے ہیں تو تم سب کو ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ اگر نہیں بیٹھنا چاہتے ہیں تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ تم سب سے بے نیاز ہے۔ تمہارے لئے الگ مجلس منعقد نہیں کی جائیگی۔ {بخاری شریف}
مذکورہ تمام باتوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں کا ہر کوئی ہمیشہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کو حاضر وناظر سمجھ کر زندگی کو آگے بڑھائے۔ اِس کے لئے لازم ہے کہ حضرت محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔ اور مظلوم، تنگدست، غریب، کمزور اور ضعیف کو بالکلیہ طور پر حقیر اور معمولی نہ سمجھیں، بلکہ حتی المقدور انہیں راحت پہنچانے اور ان کی کمزوری دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قیامت کے دن جنت میں سب سے پہلے غریب لوگ ہی امیر لوگوں کی بنسبت تقریباً پانچسو {۵۰۰} برس پہلے داخل ہونگے، کیونکہ ان غریبوں کا حساب و کتاب جلد از جلد ہوجائیگا۔ اور امیر لوگ تاخیر سے اس لئے جنت میں جاتے ہیں کہ ان کا حساب و کتاب زیادہ دیر تک ہوگا، اور دنیا میں خرچ کیے ہوے ایک ایک پیسے کا حساب و کتاب دینا ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com