کشمیر میں ایک ہزار کروڑ کی سیب کی فصل، 1200 اسکول عمارتیں ، دیگر انفراسٹرکچر تباہ

جموں 20 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) جموں و کشمیر میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے اپنے پیچھے بھیانک صورتحال چھوڑ دی ہے۔ وادی کشمیر کو سب کی فصل کے لئے سب سے بڑا مقام حاصل ہے۔ ریاست میں سیلاب نے باغبانی کی صنعت کو بُری طرح تباہ کردیا ہے۔ 1000 کروڑ کے سیب کی فصلیں ضائع ہوچکی ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 200 اسکولی عمارتیں بھی تباہ ہوگئی ہیں۔ سیب کی پیداوار متاثر ہونے سے 1000 کروڑ روپئے کے نقصان کے علاوہ 30 لاکھ افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ملک بھر میں کشمیر سے ہی سیب کی بڑی مقدار سربراہ کی جاتی تھی۔ آنے والے دنوں میں سیب کی کمی کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں بارہمولہ، کپواڑہ اور سوپور میں جہاں سیب کی فصلیں بُری طرح تباہ ہوئی ہیں یہ علاقہ سیب پیدا کرنے والے اہم مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ ریاست میں باغبانی کے ذریعہ سالانہ 2000 کروڑ کی زرعی پیداوار ہوتی ہے جس سے 30 لاکھ افراد وابستہ ہیں۔ سیلاب نے انھیں معاشی طور سے محروم کردیا ہے۔

سیب کی پیداوار ہی کشمیر کی اہم معیشت متصور ہوتی ہے۔ جس سے سالانہ 1200 کروڑ روپئے کی آمدنی ہوتی ہے۔ سالانہ یہاں 1.6 ملین ٹن سیب پیدا ہوتا ہے۔ اس شعبہ سے وابستہ بالواسطہ طور پر 30 لاکھ افراد کو روزگار حاصل ہوتا ہے۔ کشمیری سیب نہ صرف اندرون ملک بلکہ ساری دنیا کی مارکٹ میں سب سے پسندیدگی کا مقام رکھتے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے یہاں ایک طرف معیشت پر اثر پڑا ہے وہیں اسکولوں کی عمارتوں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ طلباء کو زیر سماں تعلیم حاصل کرنا پڑرہا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے زائداز 1200 اسکولی عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ جموں میں 1,276 سرکاری اسکولی عمارتوں کو نقصان پہنچا جس سے تعلیمی انفراسٹرکچر بُری طرح تباہ ہوا ہے۔ ریاستی نظم و نسق نے ان عمارتوں کی فوری تعمیر و مرمت کا کام شروع کردیا ہے تاکہ طلباء اپنی کلاسوں میں شرکت کرسکیں۔ اسکولی تعلیم کے ڈائرکٹر ایچ آر پکرو نے کہاکہ ہم نے اسکولی عمارتوں اور تعلیمی انفراسٹرکچر کے لئے 62 کروڑ روپئے کی تجویز پیش کردی ہے۔ سیلاب نے اسکولی طلباء کے ذوق تعلیم کو متاثر نہیں کیا۔ کئی طلباء اپنی تعلیم کو متاثر کئے بغیر پڑھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سیلاب کے پانی میں محصور لال باغ علاقہ کے ایک طالب علم کو فوج نے محفوظ طور پر نکال لیا تھا۔ لیکن اب اس نے اپنے زیرآب مکان میں رکھے ہوئے پسندیدہ اشیاء خاص کر اسکولی بیاگ کو حاصل کرلیا ہے۔

توقیر پانچویں جماعت کا طالب علم ہے۔ سرینگر میں رہنے والے اس طالب علم نے کتابوں سے اپنی محبت کا والہانہ ثبوت دیتے ہوئے سیلاب کے پانی سے بچنے کے لئے گھر کی چھت پر پہونچا اور سب سے پہلے اس نے اپنا اسکول بیاگ لینے کی کوشش کی۔ لڑکے کے والد مشتاق احمد نے کہاکہ ان کے گھر والوں نے پانی سے بچنے کے لئے جلدی میں گھر چھوڑ دیا تھا اور فوج کے بچاؤ کاری ہیلی کاپٹر نے انھیں پانی میں ڈوبنے سے بچالیا تھا لیکن توقیر کے اسکول بیاگ کو بھی دیگر اشیاء کے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ان کا لڑکا اپنا اسکول بیاگ لینے کی ضد کرتا تھا۔