کرن بیدی کا انتخاب

چہرے نئے ہیں اور یقینا ہیں دلفریب
ذہنوں میں زہر تو ہے وہی زہر ہلاہل
کرن بیدی کا انتخاب
دہلی انتخابات کیلئے سرگرمیاںجیسے جیسے عروج پر پہونچتی جارہی ہیں ویسے ویسے سیاسی جماعتوں کی حکمت عملیاں اور ان کے منصوبے سامنے آتے جا رہے ہیں۔ بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی اور پھر جھارکھنڈ ‘ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں کامیابیوں کے بعد اب دہلی میں بہر صورت کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یقینی طور پر ہر جماعت جب انتخابات کا سامنا کرتی ہے تو وہ اقتدار کیلئے عوام سے خط اعتماد حاصل کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتی ہے لیکن اس کیلئے جمہوری اصول اور ضابطوں کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اخلاق و اقدار اور روایات کی پاسداری ان ہی سیاسی جماعتوں کو کرنی ہوتی ہے جو منتخب ہونے کے بعد اس تعلق سے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں ۔ اپوزیشن کو نیچا دکھانے کیلئے حالانکہ یہ جماعتیں ہر طرح کی پستی میں گرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں ۔ ان کی زبان پر اقدار و اخلاق کی باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کا ہر عمل اس کے برخلاف ہوتا ہے ۔ جب دہلی میں گذشتہ سال اروند کجریوال نے استعفی پیش کیا تھا اس کے بعد سے صورتحال جو بدلتی گئی سب کے سامنے ہے ۔ بی جے پی کو جہاںملک بھر میں فی الحال کانگریس سے کسی طرح کا خطرہ نظر نہیں آتا اور اس کی کسی طرح کی مخالفت باقی نہیں رہ گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دہلی میں بی جے پی اروند کجریوال اور ان کی عام آدمی پارٹی کے اثر سے اپنے آپ کو اطمینان بخش موقف میں محسوس نہیں کر رہی ہے ۔ اسی لئے پارٹی کی جانب سے نت نئے حربے اختیار کئے جا رہے ہیں تاکہ یہاں شکست سے بچا جاسکے اور کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کیا جاسکے ۔ اسی کوشش کے طور پر بی جے پی نے سابق پولیس عہدیدار کرن بیدی کو اپنی صفوں میں شامل کرلیا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ پارٹی نے بیدی کو وزارت اعلی امیدوار کے طور پر بھی پیش کردیا ہے ۔ یہ بی جے پی کی ایک ایسی حکمت عملی ہے جو اس کے خوف کو ظاہر کرتی ہے ۔ حالانکہ جھارکھنڈ ‘ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں پارٹی نے کسی وزارت اعلی امیدوار کو پیش کرنے سے گریز کیا تھا لیکن دہلی میں بی جے پی نے اپنی صفوں میں ابھی ابھی شامل ہوئی ہے کرن بیدی کو انتہائی جلد بازی میں وزارت اعلی امیدوار کے طور پر پیش کردیا ہے حالانکہ اس کی پارٹی میں مخالفت بھی ہوئی تھی ۔
بی جے پی نے اپنی کامیابی کا یقین اور اطمینان نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے ۔ جہاں باقی ریاستوں میں کسی امیدوار کو وزارت اعلی کیلئے پیش نہیں کیا گیا تھا وہیں دہلی میں اس کی کیا ضرورت آن پڑی تھی ؟ ۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پارٹی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتی کہ تمام تر غلطیوں کے باوجود عام آدمی پارٹی دہلی کے سیاسی منظر نامہ میں اپنی طاقت اور اپنا اثر رکھتی ہے ۔ اس کی عوامی مقبولیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پارٹی کو کہیں یہ خوف بھی ہے کہ وہ اقتدار حاصل کرنے میں شائد کامیاب نہیں ہو پائیگی ۔ اگر دہلی میں بی جے پی اقتدار حاصل نہیں کرپائی تو اس کا راست اثر وزیر اعظم مودی کی شخصیت پر پڑیگا اور اس کو مودی کی مقبولیت کے گراف میں کمی کے تناظر میں دیکھا جائیگا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے اس اندیشہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی روایات سے انحراف کیا ہے اور کرن بیدی کو وزارت اعلی امیدوار کے طور پر پیش کردیا ہے ۔ پارٹی کا یہ خوف بے بنیاد بھی نہیں ہے کیونکہ دہلی میں ابھی بھی عوام کی بڑی تعداد عام آدمی پارٹی کو ترجیح دیتی ہے ۔ مختلف سروے جو اب تک ہوئے ہیں ان میں عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کو ہم پلڑا قرار دیا گیا ہے ۔ ووٹوں کے معمولی سے تناسب میں تبدیلی سے اقتدار کا فیصلہ ہوسکتا ہے اور اسی اندیشے نے بی جے پی کو کرن بیدی کو اپنی صفوں میں شامل کرنے اور انہیںانتہائی جلد بازی میں وزارت اعلی امیدوار بنانے پر مجبور کردیا ہے ۔
بی جے پی کو خود اپنے سینئر اور قدیم قائدین پر بھی پورا یقین نہیں رہا ہے اور پارٹی ان کی عوامی مقبولیت پر تکیہ کرنے میں پس و پیش کا شکار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی دوسری جماعتوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان جماعتوں کے قائدین کا اپنی پارٹی میں سرخ قالین استقبال کرنے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں بہترین کامیابی اور تین ریاستوں کے انتخابات جیتنے کے بعد بی جے پی کو دہلی میں جس خوف کا سامنا ہے وہ در اصل عام آدمی کی طاقت کا نتیجہ ہے ۔ جس طرح دہلی کے رائے دہندوں نے کرپشن اور فرقہ واریت کو مسترد کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو ترجیح دی تھی اس سے ان کے سیاسی شعور کا پتہ چلتا ہے اور بی جے پی کو یہی سیاسی شعور پریشان کرنے لگا ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ تجزیہ غلط نہیں ہوگا کہ کرن بیدی کو مستقبل میں نریندر مودی کا چہرہ داغدار ہونے سے بچانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔