جنوبی ہند کی اہم ریاست میں کانگریس کی کامیابی کے اشارے پر سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے لیے بی جے پی مزید سرگرم
حیدرآباد۔27مارچ(سیاست نیوز) کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کے اشارے موصول ہونے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی مزید سرگرم ہوچکی ہے اور اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست میں زیادہ سے زیادہ مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارتے ہوئے سیکولر اور اقلیتی ووٹوں کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ ریاست کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کے سلسلہ میں شیڈول جاری ہونے سے قبل آئے سروے میں اس بات کی پیش قیاسی کی گئی ہے کہ ریاست کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے اشارے ملنے کے بعد صدر بھارتیہ جنتا پارٹی نے نہ صرف مسلم سیاسی جماعتوں بلکہ لنگایت سماج کے سرکردہ ذمہ داروں سے ملاقاتوں کے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کامیابی کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں مسلمانوں اور مذہبی اقلیت لنگایت کے ووٹوں کی تقسیم کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہوچکی ہے اور کہا جا رہاہے کہ اب تک جو مسلم اور سیکولر ووٹ کی تقسیم کا منصوبہ تھا اس کو مزید بہتر انداز میں پیش کرنے کے لئے کوششیںتیز کردی جائیں گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کم از کم 100 نشستوں پر مسلم اور 35 نشستوں پر لنگائیت طبقہ کے امیداروں کو میدان میں اتارنے کی کوشش کی جائے گی۔ موجودہ کرناٹک اسمبلی میں کانگریس کی 122 نشستیں ہیں اور جے ڈی ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی 40 نشستیں ہیں لیکن اس مرتبہ جو صورتحال پیدا کی جا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا رہاہے کہ کانگریس کی پالیسی کے سبب کانگریس کو فائدہ حاصل ہونے سے زیادہ ملک بھر میں فروغ پا رہی فرقہ پرستی کے سبب کانگریس کو عوامی تائید میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے شیڈول کی اجرائی کے ساتھ ہی سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے بیان نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے حلقو ںمیں ہلچل پیدا کردی ہے کیونکہ ایچ ڈی دیوے گوڑا نے شیڈول کی اجرائی کے ساتھ ہی یہ کہہ دیا ہے کہ جے ڈی ایس کانگریس کے ساتھ انتخابی اتحاد کے لئے تیار ہے اور ان امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جے ڈی ایس اور کانگریس میں اتحاد سے متعلق مذاکرات کا عمل جلد شروع ہو جائے گا۔ مسٹر دیوے گوڑا کے اعلان کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کا مکمل انحصار مسلم سیاسی جماعتوں پر ہوکر رہ گیا ہے اور وہ مسلم سیاسی جماعتوں اور مسلمانوں میں ووٹ کی طاقت کے جذبہ اور اضافی نشستوں کے مطالبہ کا احساس پیدا کرتے ہوئے جے ڈی ایس اور کانگریس کے درمیان اترپردیش جیسی صورتحال پیدا کروانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں جے ڈی ایس کو اتر پردیش کی بہوجن سماج پارٹی کی طرح استعمال کرنے کی فراق میں ہے اور جے ڈی ایس کے ذریعہ بھی امیدواروں کی فہرست میں زیادہ سے زیادہ مسلم نام شامل کرتے ہوئے مسلم ووٹ کو مسلم سیاسی جماعتوں کے علاوہ جے ڈی ایس کی جانب راغب کروانے کی کوشش کرے گی۔ مسلم سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اپنی حکمت و مصلحت کو بہتر انداز میں تیار کرتے ہیں تو ایسی صورت میں ملک بھر میں جاری زعفرانی لہر کرناٹک میں دم توڑ سکتی ہے لیکن اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے مسلم سیاسی جماعتوں اور اہم شخصیتوں کا استعمال کیا جاتا ہے توایسی صورت میں سیکولر اور مسلم ووٹ منقسم ہونے کا خدشہ برقرار رہے گا اور ان خدشات کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ ریاست کرناٹک کے انتخابات سے مسلم سیاسی جماعتیں کنارہ کشی اختیار کریں اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کا حصہ بنتے ہوئے ہندوتوا طاقتوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے کوشش کریں ۔ جنوبی ہند کی اہم ترین ریاست کرناٹک جو کہ اب جنوبی ہند کی پانچ ریاستوں میں سب سے بڑی ریاست ہونے کے علاوہ سب سے زیادہ اسمبلی نشستوں والی ریاست ہے اس ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست سے دوچارکرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان انتخابات کو فرقہ وارانہ نوعیت کے انتخابات بننے سے روکا جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مذہبی اقلیت کی جانب سے اتحاد و اتفاق کا مظاہر کرتے ہوئے سیکولر کردار کے حامل امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کی پالیسی کے بجائے اگر ریاست کرناٹک کے رائے دہندوں میں یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ ان کی ریاست میں ہونے جارہے ان انتخابات کے نتائج کے اثرات نہ صرف آئندہ چند ماہ کے دوران ہونے والے شمالی ہند کی ریاستوں کے نتائج پر مرتب ہوں گے بلکہ ان کا فیصلہ 2019 کے عام انتخابات پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے۔ کرناٹک میں لنگائیت اور مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی جو حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے اسے ناکام کرنا دونوں مذاہب کے ذمہ داروں کے علاوہ ان مذاہب کی اہم شخصیتوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس سازش کا انہیں شکار بناتے ہوئے ملک میں زعفرانی لہر کو مزید تیز کیا جا سکتا ہے۔