کرناٹک میں جمہوریت کی فتح

منزل پہ آکے لٹ گیا افسوس قافلہ
رہبر وہ اپنا ، راہ نما دیکھتا رہا
کرناٹک میں جمہوریت کی فتح
اقتدار پر جو ہوتے ہیں ان کے حامی بھی بہت ہوتے ہیں جنہیں صرف ان سے کام نکلوانا ہوتا ہے لیکن جب اقتدار کو گہن لگ جائے تو ’’پھرتے ہیں میرخوار‘‘ کوئی پوچھتا نہیں کے مصداق اپنے ہی گھٹنوں میں چہرہ چھپائے بیٹھ جاتے ہیں۔ کرناٹک میں سیاسی ڈرامے بازی نے دستور اور جمہوریت کو جس دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے اس کو پھلانگ کر اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کرنے والوں نے حالات کا رخ موڑنے کی ناپاک کوشش کی لیکن عوامی خطہ اعتماد رکھنے والوں نے اپنی کوششوں کے ذریعہ جمہوریت کو بچالیا ۔ دستوری ادارے اور جمہوری اقدار کو محفوظ رکھا ۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے والے یدی یورپا نے خطہ اعتماد کا ووٹ لینے سے قبل ہی استعفی دے کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی بدعنوان عوامل میں بری طرح شکست کھاکر ایوان اسمبلی چھوڑ دیا ۔ جنتادل ایس اور کانگریس کے اتحاد نے سیکولر ملک اور سیکولر عوام کے سامنے فرقہ پرستوں کی بدعنوانیوں سے بھری سازشوں کو ناکام بنادیا ۔ مرکز میں برسراقتدار خوشامدی سیاستداں یکتائے روزگار اور ماہر ہوتے ہیں۔ کانگریس اور جنتادل ایس نے اپنے ارکان اسمبلی کو خوشامد سیاستداں کی صف سے دور رکھنے کی کوشش تو کی اس کے ساتھ قانونی لڑائی میں کامیابی حاصل کرکے دو دن کے چیف منسٹر کیلئے مشکلات پیدا کردی۔ کرناٹک کی سیاسی صورتحال نے جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی پیدا کردی تھی۔ بی جے پی کی ذاتی بغض اور عناد بھی کھل کر سامنے آئی۔ اس نے سیاسی پارٹیوں کے درمیان نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرکے اس پر زعفرانی رنگ چڑھانے کی تیزی سے کارروائی کی۔ انتخابی جلسوں کو اکھاڑا بنانے والی بی جے پی قائدین کرناٹک اسمبلی کو بھی اکھاڑ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا۔ سپریم کورٹ نے یدی یورپا حکومت کو فوری خط اعتماد حاصل کرنے کی ہدایت دی تو بی جے پی کے امکانات پر سوال کھڑے ہوئے تھے۔ کرناٹک میں حکومت بنانا اور حکومت کا گرنا ایک وقار کا مسئلہ بن گیا۔ خاص کر وزیراعظم نریندر مودی کے لئے یہ سیاسی لڑائی اٹکی ہوئی سانس ثابت ہورہی تھی۔ بی جے پی نے اقتدار حاصل کرنے کیلئے الجھن، ابتری اور انتشار کے ذریعہ کامیابی کی منزل تک پہنچنے کا عزم کیا تھا۔ تاش کی گڈی میں جوکر کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس کو بھی استعمال کرنے کے ہنر کا مظاہرہ کرنے کی حماقت کرنے والوں نے دستوری تقدس کو پامال کرنا چاہا۔ بی جے پی کو حاصل 104 کی عددی طاقت کا تجزیہ کرنے والوں نے یہ سمجھا تھا کہ سیاسی میدان کا یہ گھوڑا لفافہ بردار صحافیوں کا تجزیہ سن کر دوڑے گا تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ کرناٹک انتخابات میں کوئی بھی پارٹی اپنے طور پر حکومت نہیں بنا پائے گی۔ اسمبلی معلق ہوگی۔ جب یہ تجزیہ اور سروے تقریباً درست ثابت ہوئے تو مابعد انتخابی نتائج اتحاد کرنے والے دو سیاسی گروپس کانگریس اور جنتادل ایس کو اقتدار کی دعوت نہ دینے کا مظاہرہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ ’’اوپر سے حکم آیا ہے‘‘ جب گورنر ’’اوپر‘‘ سے آنے والے حکم کی تعمیل کریں تو دستور کی پامالی قرار پائے گی۔ اب اس ملک میں ’’اوپر‘‘ سے آنے والے احکامات کا ہی راج ہورہا ہے تو پھر دستور اور جمہوریت کی باتیں کرنے والے اپنے میدان کے کچے کھلاڑی ثابت ہوں گے۔ کانگریس اور جنتادل ایس نے خود کو کچا کھلاڑی کہلانے سے بچنے کی کوشش ضرور کی مگر وقتی سیاسی فائدے کے لئے غداری کا ڈھنڈورا پیٹ کر پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا جائے تو اس کو کیا نام دیں گے۔ بی جے پی والوں نے رائے دہندوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی تھی ۔سچ بولنے والوں پر غداری کے الزامات لگا کر ملک کو توڑنے کی کوشش کرنے والی زعفرانی قیادت کو نفرتوں کا ایجنٹ بن کر مزید کتنی خرابیاں پیدا کرنے کی کھلی چھوٹ ملے گی یہ تو بعد کی بات ہے مگر سپریم کورٹ نے کرناٹک کے لئے کانگریس اور جنتادل ایس کی درخواستوں پر فوری فیصلہ سناتے ہوئے سودے بازی کے امکانات کو کم کردیا تھا۔ کرناٹک اسمبلی میں طاقت آزمائی کے مظاہرہ سے قبل ترپ کا پتہ کس کے پاس تھا اب کس کے پاس چلا گیا۔ جوکر کا استعمال کرنے والوں نے یہ سمجھا تھا کہ تاش کی گڈی میں موجود اس جوکر کے ملنے سے کامیابی یقینی ہے لیکن دراصل یہ ٹرمپ کارڈ جو کہ عوامی رائے کے خلاف کھیلا جانے والا تھا مگر جوں ہی اپنے اقتدار کے لئے کھیلا گیا تو ٹھس ہوگیا۔ اب کرناٹک میں ایک سیکولر حکومت آچکی ہے ۔دونوں اتحادی پارٹیوں کو 2019 ء کے عام انتخابات تک اپنی حکومت کی کارکردگی کو موثر بنانے اور فرقہ پرستوں کو اقتدار سے دور کرنے کا موقع ملا ہے تو اس میں کھرے اترنے کی ضرورت ہے ۔
پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور معیشت
ہندوستان میں پٹرول کی کھپت سب سے زیادہ ہے۔ اس لئے وہ اپنی طلب کا 80 فیصد حصہ درآمدات کے ذریعہ پورا کرتا ہے۔ آئیل کو دوسرے ملکوں سے خرید کر ہندوستان میں فروخت کرنے کے درمیان جو لاگت آتی ہے اس کے مطابق فی لیٹر قیمت طئے ہوتی ہے مگر دیکھا جارہا ہیکہ آئیل کمپنیوں نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے رجحان کو اپنا ذاتی حق سمجھ لیا ہے۔ ہندوستان پٹرول کے استعمال میں چین اور امریکہ کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے لیکن تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ کے باعث ہندوستانی معیشت جھکولے کھا رہی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں ہندوستان کا مقام تیسرا ہے اس کے باوجود وہ سالانہ کی اساس پر 1,575 ملین بیارل خام تیل درآمد کرتا ہے تو اس کے ساتھ امپورٹ بل بھی لاگو ہوگا جو 10,000 کروڑ روپئے تک ہوتا ہے۔ عالمی مارکٹ میں جیسے جیسے بیارل کی قیمت بڑھے گی۔ ہندوستان میں پٹرول کے ساتھ امپورٹ بل کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کا اثر افراط زر پر پڑتا ہے۔ جب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کو بین الاقوامی خام تیل قیمتوں سے مربوط کردیا گیا ہے۔ کرناٹک انتخابات کے نتائج سے قبل ہندوستان کی تیل کمپنیاں بھی روزانہ کی اساس پر قیمتوں میں اضافہ کررہی تھی لیکن جیسے نتائج کا اعلان ہوا تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا تو دیگر اشیاء بھی مہنگے ہوں گے۔