کجریوال سے تقریباً 3.5 لاکھ مقامی مسلمانوں کو اُمیدیں

وارانسی، 10 مئی (سیاست ڈاٹ کام) انتخابی مہم کے شور شرابے اور ہلہ گلا سے قطع نظر وارانسی کے مسلم رائے دہندوں میں خاموشی کے ساتھ نریندر مودی کے خلاف مہم چل رہی ہے۔ بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے چیلنج کا سامنا کرنے والے مسلمانوں نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ متحد ہوکر عام آدمی پارٹی امیدوار اروند کجریوال کو ووٹ ڈالیں گے۔ اس بات کی ہرممکنہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسلم طبقہ کا ایک ووٹ بھی منقسم نہ ہونے پائے۔ لہذا یہ بات واضح ہورہی ہے کہ مخالف مودی ووٹوں میں کوئی پھوٹ نہیں ہوگی۔ یہ بھی مضبوط اشارے مل رہے ہیں کہ پولنگ کے دن ہر ایک مسلم رائے دہندہ پولنگ اسٹیشن پہونچ کر اپنے حق ووٹ سے استفادہ کرے۔ اس سے توقع ہے کہ عام آدمی پارٹی امیدوار کو زبردست فائدہ ہوگا۔ وارانسی سے مفتی عبدالمتین نعمانی نے اس بات کی توثیق کردی ہے کہ وارانسی کے مسلمان صرف عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیں گے۔

سکیولرازم کو درپیش چیلنج کو دیکھتے ہوئے ہم اپنے بھائیوں سے کہہ رہے ہیں کہ یہاں یکطرفہ رائے دہی ہونی چاہئے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مسلم طبقہ کا ایک بھی ووٹ پھوٹ کا شکار نہ ہونے پائے کیوں کہ اس سے صرف ان لوگوں کو فائدہ ہوگا جو اپنے متعصب ہیں اور ہمارے لئے کوئی فائدہ پہنچانے کا منصوبہ نہیں رکھتے۔ وارانسی میں جملہ 17 لاکھ رائے دہندے ہیں، جن میں تقریباً 3.5 لاکھ مسلم ووٹ ہیں۔ وارانسی کے شہری علاقوں میں مسلمانوں کا اچھا اثر ہے۔ یہاں مودی کیلئے دو اصولی چیلنجس ہیں۔ ایک تو مسلم ووٹوں کی اکثریت ہے، دوسری طرف دیگر رائے دہندوں نے اب تک اپنے موقف کو واضح نہیں کیا ہے کہ آخر وہ کس کو ووٹ دیں گے۔

بی جے پی کو توقع ہے کہ دیگر سکیولر امیدواروں میں ووٹوں کی تقسیم سے اسے بھاری اکثریت سے کامیابی ملے گی اور مودی کامیاب ہوں گے۔ تاہم مولانا نعمانی نے مسلم ووٹوں کی تقسیم کے امکان کو مسترد کردیا اور کہاکہ مسلمانوں کا ووٹ ہرگز تقسیم نہیں ہوگا اور نہ ہی مسلمان مودی کو ووٹ دیں گے۔ مسلم طبقہ کے ترجیحی امیدواروں میں عام آدمی پارٹی کے کجریوال اور کانگریس کے اجئے رائے ہیں لیکن اس وقت مسلمانوں نے کجریوال میں دلچسپی دکھانی شروع کی ہے لیکن بعض محلوں میں عوام اجئے رائے کے تعلق سے بھی مثبت اظہار خیال کررہے ہیں۔ مقامی بزرگ مذہبی رہنما کے مطابق جو مسلم طبقہ میں زیادہ محترم مقام رکھتے ہیں، ان کا فیصلہ اور حکم ہی قطعی ہوگا اور 11 مئی کی شام فیصلہ کیا جائے گا کہ 12 مئی کو کس کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے اور ووٹوں کی تقسیم کو کس طرح بچانا ہے۔