حبیب سہیل بن سعید العیدروس
حضور نبی کریم ﷺ کا ذکر جمیل تمام کتب سماویہ میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کا ذکر مبارک اپنی ہر وحی اور اپنی ہر کتاب میں بیان فرمایا۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم میثاق میں انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح طیبات سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے اور آپﷺ کی مدد کرنے کا وعدہ لیا تھا، اس نے نہیں چاہا کہ یہ وعدہ صرف رازِ باطنی رہ جائے، بلکہ آنے والی نسل انسانی اس عظیم الشان نبی کی عظمت سے باخبر ہو۔ اسی لئے کتبِ سابقہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کا ذکر کیا اور قرآن پاک میں رہنمائی فرمائی کہ ’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں، جو امی (لقب) نبی ہیں، جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف۔۱۵۷)
کتب الہٰیہ، حضور اکرم ﷺکی نعت و صفات سے بھری ہوئی تھیں۔ اہل کتاب ہر دور میں اپنی کتابوں میں تراش خراش کرتے رہے اور ان کی بڑی کوششیں رہیں کہ حضورﷺ کا ذکر جمیل اپنی کتابوں میں نہ رہنے دیں، لیکن ہزارہا تبدیلیوں کے بعد بھی موجودہ زمانہ کی بائبل میں حضورﷺ کی بشارت کا نشان کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا۔ چنانچہ بائبل میں یوحنا کی انجیل کے باب۱۴ کی ۱۶ویں آیت میں ہے: ’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے‘‘۔ لفظ ’’مددگار‘‘ پر حاشیہ ہے، جس میں اس کے معنی ’’وکیل‘‘ یا ’’شفیع‘‘ لکھا ہے، یعنی اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد جو شفیع ہوگا وہ ابد تک رہے گا، یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہیں ہوگا۔ یقیناً وہ ذات بجز حضور نبی کریم ﷺ کے کوئی دوسری نہیں ہوسکتی۔
پھر اسی باب کی انتیسویں اور تیسویں آیت میں ہے: ’’اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے، تاکہ جب ہو جائے تو تم یقین کرو، اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں‘‘۔ کتنی صاف بشارت دی ہے مسیح علیہ السلام نے اپنی امت کو اور حضورﷺ کی ولادت کا کیسا منظر بتایا اور شوق دِلایا ہے۔ واضح رہے کہ ’’دنیا کا سردار‘‘ خاص ’’سید عالم‘‘ کا ترجمہ ہے۔ (خزائن العرفان)
حضور اکرم ﷺ کے بہت سے نام، آپؐ کے اوصاف و حالات اور حلیہ شریف تورات، انجیل، زبور اور انبیاء سابقہ کے صحائف میں مذکور تھے۔ چنانچہ تفسیر صاوی شریف میں ہے کہ حضور ﷺ کا اسم مبارک سریانی زبان میں، جو کہ تورات کی زبان ہے ’’مُنْحَامنٌ‘‘ ہے، جس کے معنی ’’محمد‘‘ ہیں۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعب احبار سے روایت کی ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم پاک تورات میں ’’موذ موذ‘‘، انجیل میں ’’طاب طاب‘‘، زبور میں ’’فاروق‘‘ اور باقی آسمانی صحیفوں میں ’’عاقب‘‘ ہے۔ رب کے پاس ’’طٰہٰ‘‘ اور ’’محمد‘‘ ہے۔ (صاوی)
حضرت سھیل مولیٰ خیشمہ سے روایت ہے کہ میں نے انجیل میں حضور انور ﷺکے اوصاف یوں پڑھے کہ ’’نہ تو پستہ قد ہیں نہ دراز قد، گورا رنگ ہیں، دو زلفوں والے ہیں، ان کے دو کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہے، وہ صدقہ قبول نہ کریں گے، اونٹ اور خچر پر سوار ہوں گے، اپنی بکری کا دودھ خود دوہ لیا کریں گے، پیوند والے کپڑے پہن لیا کریں گے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہوں گے، ان کا نام احمد ہوگا‘‘۔ (ابن عساکر)
حضرت عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ میری ملاقات حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی۔ میں نے کہا کہ ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صفت کے بارے میں بتائیے، جو تورات میں ہے‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’اللہ کی قسم! تورات میں آپﷺ کی ان بعض صفات کا ذکر ہے، جو قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں۔ وہ یہ ہیں: اے نبی! ہم نے آپ کو اس حال میں بھیجا کہ آپ شاہد، مبشر اور نذیر ہیں اور امیین کی پناہ ہیں۔ آپ میرے بندے اور رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، آپ سخت مزاج اور درشت خو نہیں ہیں اور نہ بازار میں شور کرنے والے ہیں اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں، لیکن معاف کرتے ہیں اور بخش دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی روح ہرگز قبض نہیں کرے گا، حتی کہ آپ کے سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھاکر دے گا، اس طورپر کہ وہ سب لَاالہ الّااللّٰہ کہیں گے اور آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور پردہ پڑے ہوئے دِلوں کو کھول دے گا‘‘۔ (بخاری)
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں حضور اکرم ﷺکی صفت مذکور ہے کہ ’’اور اللہ اس وقت تک آپ کی روح ہرگز قبض نہیں کرے گا، حتی کہ آپ کے سبب سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا کردے گا۔ بایں طور کہ وہ کہیں گے لَاالہ الّااللّٰہ اور آپﷺ کے سبب سے اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور پردہ پڑے ہوئے دلوں کو کھول دے گا‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث ۲۱۲۵)
موجودہ انجیل کے متن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں ہیں، چنانچہ ایک مقام پر ہے: ’’یسوع نے ان سے کہا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کے معماروں نے رد کیا، وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے؟۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے، دے دی جائے گی‘‘۔ (متی کی انجیل، باب۲۱، آیات ۴۲،۴۳)
انجیل میں ایک مقام پر یوں آیا ہے کہ ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے، یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا، بلکہ ان سے بھی بڑے کام کرے گا، کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔ اور جو کچھ تم میرے نام سے چاہو گے میں وہی کروں گا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پائے۔ اگر میرے نام سے کچھ چاہو گے تو میں وہی کروں گا۔ اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو گے اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے‘‘۔ (یوحنا کی انجیل، باب۴، آیات۱۲تا۱۶)
پھر فرمایا: ’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا، جن کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی روحِ حق جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا‘‘۔ (یوحنا کی انجیل، باب۱۴، آیت۲۶)
قرآن پاک میں ہے: ’’اور جب عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اس حال میں کہ میں اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو میرے سامنے ہے اور ایک عظیم رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئیں گے ان کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے‘‘ (سورۃ الصف۔۶) اس بشارت کی تصدیق انجیل میں یوں ہے کہ ’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ سے اس کا کچھ نہیں‘‘ (یوحنا کی انجیل، باب۱۴، آیت۳۰) دوسرے مقام پر ہے کہ ’’وہ میری گواہی دے گا‘‘۔
(یوحنا کی انجیل، باب۱۴، آیت۲۶)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں لوگوں کی بہ نسبت ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں، تمام انبیاء علاتی (باپ شریک) بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)
ان آیات میں ہے کہ ’’وہ تم کو سچائی کی راہ دِکھائے گا‘‘ (یوحنا کی انجیل، باب۱۶، آیت۳) اور قرآن مجید میں اللہ تعالی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے: ’’بے شک آپ ضرور سیدھے راستے کی ہدایت دیتے ہیں‘‘ (سورۃ الشوریٰ۔۵۲)
الغرض ہر نبی نے اپنے اپنے زمانے میں بشارتیں دی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے قصے ہر نبی و رسول کی زبان سے بیان کروائے گئے اور ہر امت کو سنائے گئے، لہذا ایسا عظیم رسول کہ جن کی آمد کا چرچا ہزاروں برس بلکہ ابتدائے خلق سے ہوتا رہا ہو، اگر خود اس نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کی میلاد کا ذکر کرے تو یہ بدعت کیونکر ہوگا؟۔ اللہ تعالی ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی مجالس منعقد کرنے، آپﷺ کی سیرت و سنت کو سننے اور اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم)