گلشن میں کہیں فصلِ بہار آئی ہے شاید
پھر خارِ مغیلاں کی چبھن جاگ اُٹھی ہے
کانگریس کی انتخابی تیاریاں
کل ہند کانگریس کمیٹی کا ایک اجلاس آج دہلی میںمنعقد ہوا ۔ یہ اجلاس عملا آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے کانگریس کی تیاریوں کا آغاز تھا اور اس اجلاس کے ذریعہ کانگریس نے ایک طرح سے اپنی انتخابی حکمت عملی کو بھی واضح کردیا ہے ۔ اجلاس میں مختلف قائدین نے مختلف نکات پر اظہار خیال کیا ہے ۔ حالانکہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے کل منعقدہ اجلاس میں یہ واضح کردیا گیا تھا کہ راہول گاندھی کو کانگریس پارٹی کا وزارت عظمی امیدوار نامزد نہیں کیا جائیگا کیونکہ ایسا کرنا کانگریس کی روایت نہیں ہے ۔ ایک لیڈر کا کہنا تھا کہ کانگریس کو وزارت عظمی امیدوار کی نامزدگی کے معاملہ میں بی جے پی کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں خود راہول گاندھی نے بھی آج کے اجلاس میں اپنی تقریر میں یہ واضح کردیا کہ ملک کے آئندہ وزیراعظم کا انتخاب ارکان پارلیمنٹ کرینگے ۔ وہ پارٹی کے ایک سپاہی ہیں اور پارٹی انہیں جو کچھ بھی ذمہ داری سونپے وہ اسے پورا کرنے کو تیار ہیں۔ راہول گاندھی کی سرگرمیوں میں گذشتہ چند مہینوں میں جو اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے پارٹی اور حکومت کی سطح پر جو اقدامات کئے ہیں اور بعض مسائل پر جس طرح سے اثرا نداز ہوئے ہیں ان سے یہ اشارے واضح ہیں کہ راہول گاندھی ہی کانگریس کے وزار ت عظمی امیدوار ہیں لیکن پارٹی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کریگی ۔ اس مسئلہ سے قطع نظر کل ہند کانگریس کمیٹی کا اجلاس کانگریس کی انتخابی تیاریوں کا عملا آغاز کرچکا ہے ۔ آج اجلاس میں پارٹی قائدین نے اور خاص طور پر صدر کانگریس سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی نے جو تقاریر کی ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کانگریس انتخابات کے دوران کس طرح کی حکمت عملی اختیار کریگی اور اس کا نعرہ کیا ہوگا ۔ آج کے اجلاس میںجس طرح سے بالواسطہ طور پر نریندر مودی اور بی جے پی کی فرقہ پرستانہ پالیسیوں و ایجنڈہ کو نشانہ بنایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس پارٹی نریندر مودی پر جوابی وار کرنا شروع کردیا ہے ۔ سونیا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ بی جے پی کی تقسیم پسندانہ اور نفرت پر مبنی پالیسیاں ملک کیلئے خطرہ ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ کانگریس پارٹی ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا نہیں دیتی ۔ ایسا کرنا اس کی پالیسیوں میں شامل نہیں ہے ۔
صدر کانگریس اور نائب صدر کانگریس کی تقاریر سے واضح ہوگیا ہے کہ کانگریس فرقہ پرستی کے ایجنڈہ پر بی جے پی کو گھیرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور نریندر مودی کی شخصیت کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی مہم کو متاثر کیا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں راہول گاندھی نے اپنی تقریر میں کئی موضوعات کا احاطہ کیا اور انہوں نے بالواسطہ طور پر سبھی گوشوں کو نشانہ بنایا ہے ۔ راہول نے کہا کہ جمہوریت میں کسی ایک آدمی سے کام نہیں چل سکتا بلکہ جمہوریت کو عوامی نمائندوں کے ذریعہ آگے بڑھایا جاتا ہے ۔ اس طرح انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے نہ صرف بی جے پی لیڈر نریندرمودی کو بلکہ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال کو بھی نشانہ بنایا ہے ۔ عام آدمی پارٹی میںاروند کجریوال تنہا پارٹی کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم ہیں اور ان کے ساتھ کوئی دوسرے عوامی چہرے نہیں ہیں ۔
بی جے پی میں بھی نریندر مودی کو سب سے جدا کرکے پیش کیا جارہا ہے اور دوسرے تقریبا تمام قائدین مودی کے گن گانے میںہی مصروف ہیں ۔ ان کی نظر میں دوسرے قائدین کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔ بی جے پی یہ فرض کرچکی ہے کہ اسے اقتدار کی مسند تک صرف نریندر مودی کی شخصیت ہی پہونچا سکتی ہے ۔ ایسے میں راہول گاندھی کا تبصرہ دونوں ہی جماعتوں کو نشانہ بنانے کیلئے تھا ۔ راہول نے اپنی تقریر میںیہ دعوی کیا کہ کانگریس نے گذشتہ دس برسوں میں بے مثال کام کیا ہے ۔ ان کا ادعا تھا کہ آر ٹی آئی قانون کے ذریعہ کانگریس نے ملک کے عوام کو معلومات کا حق فراہم کیا ہے ۔ لوک پال بل کی منظوری کا سہرا بھی انہوں نے کانگریس کے سرباندھا اور کہا کہ ہر گوشے سے اس تعلق سے ڈرامہ بازیاں کی گئیں لیکن بالآخر کانگریس نے ہی کرپشن کی روک تھام میں مرکزی مقام رکھنے والے اس بل کو منظوری دلائی ۔
راہول گاندھی نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے اپیل کی کہ وہ سبسڈی پر فراہم کئے جانے والے پکوان گیس سلینڈرس کی سالانہ تعداد کو 9 سے بڑھا کر 12 کردیں۔ پکوان گیس سلینڈرس کا مسئلہ گذشتہ چند دن سے موضوع بحث ہے اور کانگریس پارٹی انتخابات سے قبل اس میں اضافہ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے تاہم اس کیلئے ایسا منصوبہ تیار کیا جارہا ہے جس کے تحت ملک کے عوام کو یہ تاثر مل جائے کہ یہ سب کچھ راہول گاندھی کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی ممکن ہوسکا ہے ۔ اپوزیشن کو گھیرنے اور راہول گاندھی کو عوامی مقبولیت کی سطح پر ابھارنے کی کوششیں کانگریس پارٹی کی انتخابی تیاریوں اور اس کی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور اسے یقین ہے کہ پارٹی کی یہ کوشش اسے مشکل صورتحال سے نکال کر ایک بار پھر عوام کی تائید دلانے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ کانگریس اپنے طور پر قبل از وقت تمام ایسا مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جن کی وجہ سے اسے عوامی ناراضگی کا سامنا ہے ۔کانگریس عوام کی ناراضگی کو دور کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگی اور اس نے انتخابات کا سامنا کرنے کی جو حکمت عملی بنائی ہے وہ کس حد تک کارگر ثابت ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتا پائیگا۔