جب کسی سے کوئی گلہ رکھنا
سامنے اپنے آئینہ رکھنا
کانگریس کیلئے خود احتسابی کا سال
کانگریس نے اس سال انتخابی ناکامیوں کا افسوسناک مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی 130 ویں یوم تاسیس تقریب منائی ہے تو اس کے ساتھ اسے اپنی شاندار تاریخ کی یاد میں حالیہ سیاسی پسپائی کا ماتم بھی کرنا پڑا ہے۔ 543 رکنی لوک سبھا میں صرف 44 نشستیں حاصل کرنے والی اس قدیم پارٹی نے لوک سبھا انتخابات کے بعد ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھی ہزیمت انگیز مظاہرہ کیا ہے۔ مہاراشٹرا ، ہریانہ، جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بدترین شکست نے اس پارٹی کو خوداحتسابی اور تنظیمی کارکردگی کے علاوہ ریاستی صدارت کے مسئلہ پر غوروخوض اور ٹھوس فیصلے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی نے اس قدیم پارٹی کو شدید نقصان پہونچایا ہے، اب اسے اپنی شان و ساکھ کو بحال کرنے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہوگی، مگر غور طلب امر یہ ہے کہ پے در پے ناکامیوں کی وجہ سے پارٹی کیڈرس پر بھی مایوسی چھائی ہوئی ہے، اس لئے پارٹی کی رکنیت سازی مہم کا بھی ردعمل تشویشناک ہے۔ رکنیت حاصل کرنے والوں کی تعداد میں کمی نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کو مضبوط بنانے میں تاخیر ہوگی۔ پارٹی کو مضبوط بنانے کی فکر کرنے والی قیادت میں ہی سستی و کاہلی نوٹ کی جارہی ہے۔ اے آئی سی سی ہیڈکوارٹرس پر منعقدہ 130 ویں یوم تاسیس تقریب سے پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی کی غیرحاضری کو شدت سے نوٹ کیا گیا ہے۔ اس تقریب میں کانگریس کے چند وفادار قائدین کے سواء کوئی خاص تعداد شریک نہیں تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس کو 1885ء میں قائم کیا گیا۔ پارٹی کا پہلا سیشن ممبئی میں منعقد ہوا تھا جس میں 72 ارکان نے شرکت کی تھی۔ آج اس کی 130 ویں یوم تاسیس کی تقریب میں بھی جب انتخابی تعداد میں اہم قائدین شرکت کرتے ہیں اور پارٹی کا نائب صدر غیرحاضر رہتا ہے تو اس سے اندازہ ہونا چاہئے کہ پارٹی کو ناکامیوں کے کس دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ جس پارٹی نے لوک سبھا کی تاریخ میں نمایاں رول ادا کیا تھا اور 2009ء میں اس کے 206 ارکان تھے۔ پانچ سال بعد وہ اپوزیشن کے موقف سے محروم ہوتے ہوئے صرف 44 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس طرح کی تشویشناک ہزیمت کا موثر جواب یہی ہوسکتا تھا کہ پارٹی کو تنظیمی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے۔ پارٹی نے ان ناکامیوں کے باوجود کچھ سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ پارٹی قیادت اور کارکنوں میں یکساں لاپرواہی دیکھی جارہی ہے۔ پارٹی کا سیکولر کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس نے اپنی تاریخ کے تمام برسوں میں سیکولرازم کو فروغ دیا ہے۔ سیکولرازم ہی کانگریس کے نظریہ کا اٹوٹ حصہ سمجھا جاتا ہے، اس نے ہمیشہ سے سیاست سے مذہب کو علیحدہ رکھا اور تمام عقائد کا یکساں احترام کیا۔ ملک میں تمام مذہبی اقلیتوں کی سلامتی، شناخت اور مفادات کا تحفظ کیا لیکن حالیہ برسوں میں اس پر نقلی سیکولرازم کا الزام عائد کیا گیا۔ اس جوالزام کی آڑ میں بی جے پی قائدین نے اپنے فرقہ پرستانہ ایجنڈہ کو پوری شدت سے عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی اور کامیاب ہوتے گئے اور اس کے جواب میں کانگریس نے کوئی تیاری نہیں کی۔ جس شدت سے فرقہ پرستوں نے ملک کے عوام کے ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کی، اس شدت یا اس سے بڑھ کر کانگریس کو ہندوستان کے سیکولرازم کے تحفظ کیلئے محنت کرنی تھی مگر ایسا ہو نہ سکا۔ نتیجہ میں آج مرکز کا اقتدار فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں ہے۔ کانگریس خود پر عائد کردہ نقلی سیکولرازم کے الزام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس الزام کو تقویت پہونچانے والے بعض ایسی فاش غلطیاں کی کہ ملک کے تمام مذہبی اقلیتوں کے اندر بے چینی پیدا ہوگئی اور یہی وجہ ہے کہ آج مذہبی اقلیتوں کا اعتماد اس پارٹی سے اُٹھنے لگا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے متواتر سیاسی انحطاط کا شکار پارٹی نے اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے تعلق سے اپنے عہد کو بھی پورا نہیں کیا۔ الغرض یہ احساس پیدا کردیا گیا کہ جن کے بناء جینا مشکل تھا۔ اس نے جینا مشکل کردیا جس کے نام کی ہم قسم کھاتے تھے، وہی قسم توڑ کے چل دیا۔ کانگریس نے اقلیتوں کے ساتھ جو مذاق کیا تھا، اس کا خمیازہ ناکامیوں کی شکل میں نمودار ہورہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ کانگریس خود کو مضبوط بناسکتی ہے، اسے خوداحتسابی کے ساتھ تضادات و تنازعات سے گریز کرتے ہوئے سماج میں پیدا کی جانے والی انتشار کی کوششوں کو ناکام بناکر فرقہ پرستوں کے اصل چہروں کو بے نقاب کرتے ہوئے سیکولر ہندوستان ، دستور ہند، جمہوریت کی گم گشتہ عظمت کو بحال کرنے کی جہد مسلسل کرے۔