کانگریس کے لئے گزشتہ چند مہینوں سے چھوٹی چھوٹی بدگمانیاں، بڑی بڑی غلطیاں اور داخلی ناراضگی نے فضاء کو مکدر کردیا تھا جس کے نتیجہ میں اس کی سیاسی کامیابیوں کا گراف ’’زیرو ‘‘ہو آکر رُک گیا ہے۔ دہلی میں اس کیساتھ جو کچھ ہوا، وہ غیرمتوقع بھی نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی کے بزرگوں کی روح کو ایک بار پھر صدمہ ہوا ہوگا۔ میدان سیاست میں راہول گاندھی کی جگہ پرینکا گاندھی کو لانے کا مطالبہ کرنے والی ٹیموں نے کانگریس کو شدید نقصان پہونچانا شروع کردیا ہے۔ دارالحکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کے سامنے کانگریس کا وقار جب صفر سطح تک پہونچ جاتا ہے تو یہ پارٹی سے بیزار عوام کا موثر فیصلہ ہے۔ 28 ڈسمبر 2013ء کو عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کجریوال نے چیف منسٹر دہلی کا حلف لیا تھا کیونکہ اسمبلی انتخابات میں بڑی پارٹیوں خاص کر کانگریس اور بی جے پی کو اکثریت حاصل نہ ہوئی تو البتہ عام آدمی پارٹی کو 28 نشستیں ملی تھیں اور کانگریس نے اتحاد کرکے حکومت بنانے میں مدد کی تھی۔ اس وقت عام آدمی پارٹی نے دہلی کے فی خاندان کو یومیہ 700 لیٹر پانی مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ وعدہ کی تکمیل کرتے ہوئے اقتدار کے دوسرے ہی دن کجریوال نے نہ صرف پانی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا بلکہ 50 فیصد برقی شرح کو کم کردیا تھا۔ برقی کمپنیوں کی آڈٹ کرانے کا بھی حکم دیا تھا۔ اسی طرح کی کوششوں کو دیکھ کر ہی آج دہلی کے باشندوں نے کانگریس کو ایک بھی نشست پر کامیاب نہیں کیا ہے تو یہ پارٹی کے لئے افسوس کا مقام ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران کانگریس کو اپنے کھوئے ہوئے مقام کی حصول کی سنجیدہ کوشش کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ نئی دہلی میں چونکہ نئی نسل کا اس الیکشن میں بہت اہم رول رہا، یہ نسل اپنی زندگیوں میں تبدیلی صرف ووٹ کے ذریعہ لاسکتی ہے جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہلی میں اپنے درمیان کے عام آدمی کو منتخب کیا ہے۔ اب کانگریس اس حالت میں آچکی ہے کہ اس کی آنکھوں سے گرنے والا پانی اندر کے غم کا نتیجہ ہے یا خاندانی حکمرانی کی رسہ کشی کا صدمہ ہے۔ دہلی میں کانگریس نے ماضی کی ناکامیوں پر سبق نہیں سیکھا تھا۔ پارٹی کے ایک ایسے لیڈر کو چیف منسٹر دہلی کے امیدوار کی حیثیت سے مقرر کیا گیا جو سابق چیف منسٹر شیلا ڈکشٹ سے شدید مخالفت رکھتے ہیں۔ کانگریس نے اجئے ماکن کو دہلی کی ذمہ داری دے کر خود کو مزید کمزور بنا لیا تھا۔ دہلی کے 70 حلقوں میں سے کسی ایک پر بھی کامیاب نہ ہونا صدر کانگریس سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کے لئے لمحہ فکر ہے کیونکہ 2013ء میں کانگریس نے 70 کے منجملہ 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ دہلی کی تین مرتبہ چیف منسٹر رہنے والی شیلا ڈکشٹ کو جب شکست ہوئی تھی تو اس شکست کو مخالف حکمرانی لہر قرار دیا گیا تھا، مگر اس مرتبہ کانگریس کا صفر پر خاتمہ ہوا ہے تو اس کو آیا ’’مخالف کانگریس لہر ‘‘قرار دیا جاسکتا ہے۔ کانگریس ہیڈکوارٹرس کے باہر خاندانی حکمرانی کے تنازعہ پر جو چرچے ہورہے ہیں،
اس میں کانگریس کا ایک ٹولہ راہول کی جگہ پرینکا گاندھی کو لانے کا مطالبہ کررہا ہے۔ ’’پرینکا لاؤ، کانگریس بچاؤ‘‘ کے نعرے لگانے والوں نے بھی دہلی میں پارٹی کو کمزور بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لئے پارٹی کے چند ہمدرد اور نیک خواہشات رکھنے والے قائدین نے خوداحتسابی کا مشورہ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ناکامی کے لئے آیا راہول گاندھی ذمہ داری قبول کریں گے۔ پارٹی لیڈر راجیو شکلا نے کہا کہ کانگریس کو کھویا وقار حاصل کرنے سخت محنت کرنی پڑے گی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا پرینکا گاندھی پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے تیار ہوں گی۔ اگر اس بات کا فیصلہ صرف داخلی خاندانی سطح پر چھوڑ دیا جائے تو پھر کانگریس کے حق میں تبدیلی اور بہتری کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ پرینکا گاندھی کے آنے کے باوجود اگر پارٹی کو عوام نے خاطر میں نہیں لایا تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پارٹی اپنا خسارہ خود کرنا چاہتی ہے۔ کانگریس کو خاندانی حکمرانی سے چھٹکارہ دلانے کیلئے بھی پارٹی کے اندر کوئی متبادل مضبوط لیڈر نہیں ہے۔ ایسے میں دیگر پارٹیوں کو سیاسی قسمت آزمائی میں کامیابی مل رہی ہے۔ کانگریس کے لئے ذہن کا اضطراب اور خیالات کی تبدیلیاں ہی اس کے کردار کو مضبوط بنانے میں مدد کریں گی۔ یہ بات تو صد فیصد درست ہے کہ کانگریس کو اس کی بدعنوانیوں اور مالیاتی اسکامس نے بدنام اور ناکام کردیا ہے۔