مخالف تلنگانہ جگاریڈی کی شمولیت پر اقلیتوں میں تشویش
حیدرآباد۔ یکم ستمبر (سیاست نیوز) کانگریس میں فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے قائدین کی آؤ بھگت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سنگاریڈی میں فسادات کے دوران فرقہ پرست طاقتوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے مخالف تلنگانہ جگاریڈی کو کانگریس میں شامل کرنے پر کانگریس حلقوں بالخصوص اقلیتوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات کے بعد بی جے پی میں شامل ہوکر حلقہ لوک سبھا میدک کے ضمنی انتخاب میں شکست سے دو چار ہونے والے جگاریڈی کو کل گاندھی بھون میں ایک تقریب کا اہتمام کرتے ہوئے دوبارہ کانگریس میں شامل کرلیا گیا۔ ابتداء میں وہ بی جے پی سے میونسپل چیرمین منتخب ہوئے تھے، لیکن بعد ازاں اے نریندر کے ساتھ بی جے پی سے مستعفی ہوکر ٹی آر ایس میں شامل ہو گئے اور 2004ء میں پہلی مرتبہ ٹی آر ایس کے ٹکٹ پر اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے، جب کہ راج شیکھر ریڈی کے دور میں ٹی آر ایس سے بے وفائی کرکے کانگریس میں شامل ہوئے اور 2009ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے، تاہم تلنگانہ تحریک کے دوران تلنگانہ کی مہم چلانے والے کانگریس قائدین کی مخالفت کرتے رہے۔ جگاریڈی پر الزام ہے کہ سنگاریڈی میں فسادات کے دوران فرقہ پرستوں کی تائید کرتے رہے، جب کہ تلنگانہ کے حامیوں اور اقلیتوں نے انھیں 2014ء کے عام انتخابات میں شکست سے دوچار کیا۔ اس کے باوجود کانگریس نے انھیں ضلع میدک کانگریس کمیٹی کا صدر نامزد کیا اور اس کے کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کے مستعفی ہونے کے بعد مخلوعہ نشست حلقہ لوک سبھا میدک کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کے ٹکٹ پر مقابلہ کیا اور شکست کے بعد چند ماہ خاموش رہ کر اب دوبارہ کانگریس میں شامل ہو گئے۔ دریں اثناء کانگریس کے کئی اکثریتی و اقلیتی قائدین نے کانگریس کے اس فیصلہ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں اقدار، کردار، ڈسپلن اور وفاداری کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف دولت مند قائدین (خواہ وہ فرقہ پرست ہی کیوں نہ ہوں) کو پارٹی میں شامل کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ چند دن قبل شہر کے ایک قائد نے یوم سقوط حیدرآباد تقریب کے مسئلہ پر مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس میں نرم ہندوتوا کے حامل قائدین کو اہمیت دی جا رہی ہے، جب کہ کانگریس کی جانب سے سیکولرازم پر ایقان رکھنے والی جماعت ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے پارٹی قائدین میں الجھن اور بے چینی پائی جا رہی ہے۔