کارنامے اور ناکامیاں وزیراعظم منموہن سنگھ کا چھوڑا ہوا ورثہ

نئی دہلی 15 مئی (سیاست ڈاٹ کام) ماہر معاشیات وزیراعظم منموہن سنگھ جنھیں 1990 ء کی دہائی میں معاشی اصلاحات کے دور کا آغاز کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، بحیثیت وزیراعظم 10 سال خدمات انجام دینے کے بعد اپنے عہدہ سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ ورثہ میں اُنھوں نے کارناموں اور ناکامیوں کی ملی جلی داستان چھوڑی ہے۔ یو پی اے کی دوسری میعاد کے دوران اتنے اسکینڈلس اُبھر آئے تھے کہ اُنھوں نے 81 سالہ لیڈر کے کارناموں کو گہن لگادیا۔ اُنھیں مسلسل دو میعادوں تک وزیراعظم برقرار رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ قبل ازیں صرف پنڈت جواہر لال نہرو 17 سال تک وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ کل کی لوک سبھا انتخابات کی رائے شماری کے بعد جس میں اگزٹ پولس کے بموجب یو پی اے کو شکست ہوگی، وزیراعظم منموہن سنگھ ہفتہ کے دن اپنا استعفیٰ پیش کردیں گے۔ نامور ماہر معاشیات سیاسی میدان میں 1991 ء کے معاشی بحران کے دوران جبکہ سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے اُنھیں اپنی کابینہ میں وزیر فینانس مقرر کیا تھا، داخل ہوئے تھے۔ اُن دونوں نے غیر متوازن معیشت، ادائیگیوں کے بحران کا مسئلہ حل کیا اور معاشی اصلاحات کی راہ ہموار کی۔ بعد کی حکومتوں نے اِس کے بعد پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ بحیثیت ٹیکنو کریٹ مختلف عہدوں پر جیسے ریزرو بینک کے گورنر، جنوب ۔ جنوب کمیشن کے سکریٹری جنرل رہ چکے ہیں۔ اُنھوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے ہی شہرت حاصل کی جبکہ سونیا گاندھی نے اُنھیں اِس عہدہ کے لئے منتخب کیا۔ این ڈی اے حکومت سے اُنھوں نے 2002 ء کے گجرات فسادات کے بعد جائزہ حاصل کیا تھا جبکہ ماحول فرقہ پرست جذبات سے بھرپور تھا۔ اُن کے انتظامیہ نے متوازن صورتحال پیدا کی۔ حلیف پارٹیوں کے دباؤ کا لحاظ کئے بغیر خاص طور پر بائیں بازو کی پارٹیوں کا دباؤ قبول کئے بغیر منموہن سنگھ نے قابل لحاظ عزم واثق کا مظاہرہ کیا اور ہند ۔ امریکہ نیوکلیر معاہدہ پر پیشرفت کی۔ اُنھوں نے اپنے دور اقتدار میں شرح ترقی 8.5 فیصد برقرار رکھی۔ تاہم اِن کے دور میں ہی 2G ، دولت مشترکہ کھیلوں اور کوئلہ بلاکس مختص کرنے کے اسکامس اُبھرنے کے نتیجہ میں حکومت کی کارکردگی متاثر ہوئی اور اِس کی پالیسیاں مفلوج ہوگئیں۔ یو پی اے کی دوسری میعاد کبھی بھی بحرانوں سے باہر نہیں نکل سکی۔ ابتداء میں کارپوریٹ اداروں کی وجہ سے اور بعدازاں نریندر مودی کو بی جے پی کا وزارت عظمیٰ امیدوار نامزد کرنے کے بعد اُنھوں نے حکومت پر تنقید کے لئے اِن اسکینڈلس کو بہانہ بنایا۔ شخصی طور پر دیانتدار شخصیت سمجھے جانے والے منموہن سنگھ ایک ایسی حکومت کے سربراہ ثابت ہوئے جو ایک کے بعد ایک کئی اسکینڈلس سے داغدار ہوگئی۔ سمجھا جاتا ہے کہ کانگریس میں اقتدار کا دوسرا مرکز صدر کانگریس سونیا گاندھی کی شکل میں موجود تھا۔ وزیراعظم پر تنقید کرنے والوں نے اِس بنیاد پر اُنھیں ملک کا اب تک کا کمزور ترین وزیراعظم قرار دیا۔ سابق مشیر برائے ذرائع ابلاغ سنجے بارو کی اور دیگر دفتر شاہوں کی کتابوں کے منظر عام پر آنے کے بعد اِس الزام پر مزید روشنی پڑی۔ تاہم منموہن سنگھ نے اِس طرح انتظامیہ سنبھالا کہ تاریخ اُن پر یقینا مہربان رہے گی۔