ڈیوڈ کیمرون کی ذمہ داریاں

خواب ہیں خواب، حقیقت نہیں ہوتے اے دل
حسبِ منشاء کبھی تعبیر نہ پائے سپنے
ڈیوڈ کیمرون کی ذمہ داریاں
دنیا کے کسی بھی ملک کا حکمراں عوام کی خدمت کرنے میں نیک نیتی کا مظاہرہ کرتا ہے تو لوگ بھی اس حد تک عملی مظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنے ملک کو مستحکم کرنے میں حکمران کی مدد کرتے ہیں ۔ برطانیہ کے انتخابات میں رائے دہندوں نے ان تمام سیاسی پنڈتوں‘ قیاس آرائیاں کرنے والے ماہرین کو شکست دیدی ہے ۔ انتخابات سے چند ہفتے قبل ایک معلق پارلیمنٹ کے وجود میں آنے یا پھر مخلوط حکومت تشکیل پانے کی قیاس آرائی کی گئی تھی۔برطانیہ کی قدامت پسند پارٹی اور لیبر پارٹی کے درمیان کانٹے کی ٹکر بتانے والوں نے اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ برطانوی عوام کے فیصلہ کے سامنے ان کی رائے صفر ہوگئی ہے۔ برطانوی عوام نے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ان کے انتخابی وعدوں کے عوض ووٹ دیا ہے تو اب انہیں اپنی دوسری پانچ سالہ میعاد کے دوران وہ تمام وعدے پورے کرنے ہوں گے جن کی تشہیر کی گئی تھی۔ برطانیہ کے مکمل نتائج کے مطابق 650 میں 331 نشستیں جیت کر کنزرویٹو پارٹی دارالعلوم میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے ۔ لیبر پارٹی کو 232 نشستیں ملیں ۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی نے 56 پر اور لبرل ڈیموکریٹس نے 8 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ سیاسی نکتہ نظر سے برطانیہ کے انتخابات کے یہ نتائج بہترین عوامی فیصلہ ہیں اور اس فیصلہ کو ملک و عوام کے مفاد میں سمجھا جارہا ہے۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اب انہیں اپنے ملک کی سیاسی صورتحال کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی اور اپنی معاشی پالیسی کو جاری رکھنے کا کامل اختیار حاصل ہوگا ۔ اب ان کے سامنے بہت بڑا سوال یہ ہے کہ آیا برطانیہ کو یوروپی یونین کا حصہ بن کر رہنا چاہئے یا یوروپی یونین سے علحدہ ہونے کیلئے عوام کی رائے معلوم کرنے ریفرنڈم کرانا چاہئے جیسا کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ برطانوی عوام میں یوروپی یونین کی رکنیت سے متعلق ریفرنڈم کرائیں گے ۔ 2017 تک انہیں برطانوی سیاسی صورتحال کو حتمی شکل دینے کی مہلت حاصل ہے ۔ عوام کا دل رکھنے کیلئے اگر ڈیوڈ کیمرون ریفرنڈم کراتے ہیں تو پھر اس کے بین الاقوامی نتائج کیا ہوں گے اس پر بھی انہیں غور کرنا ہوگا۔ یوروپی یونین کی وجہ سے برطانیہ کو اس وقت تجارت ‘سیاست اور عالمی اصولوں کے مطابق معاشی پالیسیوں کا فائدہ ہورہا ہے ۔ مگر انہیں اپنے انتخابی وعدہ کو پورا کر دکھانا ہے تو ریفرنڈم کروانا پڑے گا جس کے بعد جو سنگین صورتحال پیدا ہوگی اس کا وہ کس طرح سامنا کریں گے یہ وقت ہی بتائے گا عوام نے معاشی امور میں ڈیوڈ کیمرون کی طرز حکمرانی کو پسند کر کے ان پر اپنے اعتماد کی مہر ثبت کردی ہے تو انہیں بھی ٹیکسوں میں اضافہ سے گریز کر کے بجٹ خسارہ کو بہتر بنانے کیلئے متبادل اقدامات کرنے ہوں گے ۔ برطانیہ پر حکومت کرنے والی لیبر پارٹی کو عوام نے یکسر مسترد نہیں کیا ہے یہ پارٹی اب بھی ملک کی نصف آبادی یا پھر اس سے کم کی پسندیدہ پارٹی ہے ۔ لیبر پارٹی کو اپنے احساس محرومی کا جائزہ لے کر شکست کے اسباب کو نوٹ کرتے ہوئے از سر نو مستحکم ہونے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ لیبر پارٹی کے سربراہ ایڈ ملی بینڈ نے پارٹی کی شکست کو تسلیم کر کے پارٹی قیادت سے استعفعی دیا ہے۔ اگرچیکہ وہ خود کامیاب ہوئے ہیں لیکن انہیں پارٹی کے کمزور مظاہرہ سے مایوسی ہوئی ہے ۔ اسکاٹ لینڈ میں ایس ایف پی کے ہاتھوں شکست نے لیبر پارٹی کو شدید دھکا پہونچایا ہے ۔ لیبر پارٹی کی ناکامی کی ایک وجہ اس کی قیادت کا برطانوی متوسط طبقہ کے رائے دہندوں سے دوری ہوسکتی ہے کیونکہ امیروں کی محفلوں کی زینت بن کر لیبر پارٹی نے متوسط طبقہ کو ناراض کردیا تھا جبکہ لیبر پارٹی کی قیادت نے مخالف ڈیوڈ کیمرون مہم چلا کر ان پر الزام عائد کیا تھا کہ کیمرون امیروں کیلئے اپنی معاشی پالیسیاں بنارہے ہیں۔ اس مہم کا عوام پر اُلٹا اثر ہوا ۔ کیمرون کو موقع مل گیا ہے کہ وہ عوام کی توقعات کے مطابق حکومت کریں اور برطانوی معیشت کو مستحکم کریں۔ برطانیہ کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات دیرینہ ہیں عالمی سطح پر برطانیہ کو اپنی بعض اہم ذمہ داریاں بھی پوری کرنی ہیں ان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوہرے پن کوختم کرنا ہے تو مشرق وسطی میں امن کیلئے کوشش ‘ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاملے سے نمٹنا عالمی معاشی اور تجارتی ترکیب کو درست کرنا ‘ غریب ملکوں یا ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کو غیر متوازن کرنے والی پالیسیوں سے گریز کرنا وغیرہ بھی شامل ہے ۔ ڈیوڈ کیمرون کی خارجہ پالیسی کے خد و خال ابھی واضح نہیں ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ وہ برطانوی عوام کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے ساری دنیا میں امن و سلامتی کیلئے کامیاب مساعی کریں گے ۔
سلمان خان‘قانون و انصاف
بالی ووڈ اداکار سلمان کو ٹکر اور فرار کیس میں تحت کی عدالت کی جانب سے دی گئی پانچ سال قید بامشقت کی سزا کو ان کے وکلاء نے بمبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے قانون کے اس پہلو کے حوالے سے ان کی سزا کو معطل کردیا کہ جس کسی کو بھی 7 سال سے کم سزا ہوتی ہے اس کو معطل کرنے کا اختیار بھی عدالت کو حاصل ہے۔ عدالت نے ضمانت منظور کرتے ہوئے تحت کی عدالت کے فیصلہ پر حکم التواء جاری کیا ہے ۔ سلمان خان کو 28 ستمبر 2002 کی شب نشے میں گاڑی چلا کر فٹ پاتھ پر محو خواب ایک شخص کو روند دینے کے کیس کا سامنا ہے ۔ سلمان خان کو مجرم ٹہرائے جانے سے ہندی فلمی صنعت کو شدید دھکا پہونچا ۔ ان کی فلموں پر 800 کروڑ روپئے داو پر لگے ہیں ۔ ایسے میں دولت اور شہرت کا کھیل عدالتوں کے کٹہرے میں دیکھا جائے گا ۔ سلمان خان کو عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد قانون پر تنقیدیں کرنے والوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا ایک عام آدمی یا مجرم کو عدالتوں سے 48 گھنٹوں کے اندر راحت ملتی ہے ۔ ضمانت کی میٹھی گولی صرف دولت و شہرت رکھنے والا مجرم ہی حاصل کرسکتا ہے ۔ اب اس کیس کی سماعت جون میں ہوگی ۔ شہرت رکھنے والی شخصیات میں سنجے دت بھی ہیں جن کے کیس میں 10 تا 20 سال تو عدالتوں میں گذر گئے اور اب سلمان خان کے کیس میں بھی سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک یہ کیس 20 سال چلے گا ۔ تب تک سلمان خان کی عمر 70 سال کی ہوجائے گی ۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا شہرت رکھنے والے افراد ‘قانون کو اپنی جیب میں رکھ کر مقبولیت کا سودا کرتے ہیں؟ ٹکر اور فرار کیس پر سزا سنانے کیلئے عدالت کو 13 سال درکار ہوئے اب بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ نے قانون دانوں اور حصول انصاف کے کارکنوں کی رائے کو منقسم کردیا ہے ۔ قانون کی نظر میں ہر ایک فرد مساوی ہوتا ہے لہذا بمبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ کو حق بجانب اور قانون کے مطابق سمجھا جانا چاہئے ۔