ڈپٹی چیف منسٹر کی برطرفی

ہمیں سبق وہ سکھا رہے ہیں یا اپنی گردن بچا رہے ہیں
یہ راز تو فاش ہوگا لیکن ابھی تو محفوظ ہوگئے ہیں
ڈپٹی چیف منسٹر کی برطرفی
ڈپٹی چیف منسٹر ٹی راجیا کا تعلق پیشہ طب سے ہے۔ تلنگانہ کی پہلی کابینہ میں ایک ماہر معالج کو وزارت صحت کا قلمدان اس لئے دیا گیا تھا کہ نئی ریاست کے طبی مسائل کی بخوبی یکسوئی ہوسکے اور نئے مسائل پیدا نہ ہوں۔ ڈاکٹر راجیا نے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی توقعات کو ٹھیس پہنچایا۔ رشوت کے خاتمہ کے خلاف چیف منسٹر کی مہم میں بھی رسوائی ہونے لگی، سوائن فلو سے اموات میں اضافہ نے تلنگانہ کی صحت پالیسی کی قلعی کھول دی تھی۔ وزیر صحت کی حیثیت سے ڈاکٹر راجیا کو مؤثر اقدامات کرتے ہوئے حفظان صحت پر توجہ دینے کی ضرورت تھی مگر کہیں نہ کہیں غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ تلنگانہ کی کابینہ میں داخلی خرابیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس لئے چیف منسٹر نے اس خرابی کو دور کرنے کی سمت قدم اُٹھاکر ڈاکٹر راجیا کو برطرف کردیا۔ ان کی جگہ ورنگل کے رکن اسمبلی کڈیم سری ہری کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا ہے۔ کابینہ میں معمولی ردوبدل کے ذریعہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اپنی حکومت کی کارکردگی میں پائی جانے والی سست رفتاری کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ بعض وزراء کی کاہلی سے ناراض چیف منسٹر آئندہ مزید سخت اقدامات کرسکتے ہیں۔ رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لئے نئی ریاست تلنگانہ میں ایک مضبوط عزم کے لیڈر کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندرشیکھر راؤ کی کارکردگی پر کابینہ کے اندر ہی انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور جو وزیر شدت سے ناراضگی رکھتا ہے اس کو گھر کا راستہ دکھایا جاتا ہے تو اس طرح کی ناراضگیوں کا سلسلہ شروع ہوگا اور کابینہ داخلی انتشار کا شکار ہوجائے گی۔ پھر تلنگانہ بھون کے در و دیوار کے پیچھے اُٹھنے والا ناراضگی کا طوفان تلنگانہ عوام کے لئے مسائل پیدا کردے گا۔ چندرشیکھر راؤ نے اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے کی خاطر اندھا دھند طریقہ سے دیگر پارٹیوں کے ناراض گروپ سے تعلق رکھنے والے قائدین کو پارٹی میں شامل کیا ہے اور یہی لوگ کل ان کے لئے پریشانیاں پیدا کریں گے کیونکہ ٹی آر ایس کے قدیم وفادار کیڈر کو ٹھیس پہنچی ہے یا اس کی حق تلفی کی جاتی ہے تو پھر ایسی پارٹی کے وجود کی عمارت پھسلتی ریت کی طرح بن جاتی ہے۔ ٹی آر ایس میں جن قائدین کو شامل کیا گیا ہے ان میں بھی تلنگانہ کے تعلق سے اتنا ہی جذبہ موجود ہونا یقینی نہیں ہے کہ جتنا تلنگانہ کے بانی کیڈر میں ہوتا ہے۔ تلنگانہ عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کی قدر کئے بغیر کابینہ میں قائدین کو من مانی طریقہ سے بھر دیا جاتا ہے تو یہ عمل حکومت کی پریشانیوں کا سبب بن جاتا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر اپنی ذاتی رائے پر ہرگز کابینہ میں اتھل پتھل مچارہے ہیں تو گروپ بندیاں ان کے لئے مسائل پیدا کریں گی۔ اس خیال کو مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کے سی آر نے ٹی راجیا کو برطرف کرکے کابینہ میں موقع پرست لیڈر کو شامل کیا ہے۔ وزیر صحت کا قلمدان وزیر برقی ڈاکٹر سی لکشما ریڈی کو دینے کے بجائے اگر ہنگامی صورت میں چیف منسٹر اپنے پاس رکھتے تو سوائن اور دیگر عوامی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے اقدامات پر کی راست نگرانی ہوتی۔ ڈاکٹر ٹی راجیا کو برطرف کرنے کی وجہ عدم کارکردگی اور رشوت ستانی ہے تو پھر چیف منسٹر کو اپنی کابینہ کے دیگر وزراء کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑے گا لیکن ٹی راجیا کے خلاف کارروائی کے پیچھے کوئی اور وجہ ہے تو اس سے پارٹی کو آئندہ نقصان ہوسکتا ہے۔ ویسے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اپنے عہد کے پابند ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں۔ وہ ریاست میں رشوت کے خاتمہ کے لئے کام کررہے ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کرپشن معاملہ میں ان کے فرزند یا دختر کا نام بھی آگیا تو ان کے خلاف کارروائی کرنے میں پس و پیش نہیں کریں گے۔ اب ڈاکٹر راجیا کی برطرفی سے سارے قائدین کو یہ اشارہ مل گیا ہوگا کہ انھیں دیانتداری سے کام کرنا ہے۔ ڈاکٹر راجیا کے خلاف جمع ہونے والی شکایات کی فائیلس اونچی ہوچکی تھی اس لئے چیف منسٹر کو سخت فیصلہ کرنا پڑا۔ کڈیم سری ہری تلگودیشم سے وابستہ رہے ہیں۔ تلنگانہ کی خاطر انھوں نے تلگودیشم کو خیرباد کردیا تھا۔ اب وہ ایک اچھے سیاستداں کی خوبیوں اور صلاحیتوں کو تلنگانہ کی ترقی اور عوامی خدمات کے لئے استعمال کرتے ہیں تو ان کی صاف ستھری امیج اور اسمارٹ پن سے تلنگانہ عوام کو فائدہ ہوگا۔ تلنگانہ تحریک کی ایک تاریخ ہے اور عوام اس تاریخ کے صفحات سے توانائی حاصل کرکے اپنے کمزور مستقبل کو مضبوط بنانے کا عزم کرچکے ہیں۔ اس لئے عوام کو ایک اچھی حکمرانی دینے کے لئے کارکرد وزراء ہونا ضروری ہے۔ رشوت سے پاک حکمرانی کے لئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی کوششوں کی آڑ میں اگر ڈاکٹر ٹی راجیا آتے ہیں تو دیگر وزراء کو سنبھلنے کے لئے ایک سخت اشارہ ہے۔