ڈوکلام سے تخلیہ کا ہندوستان سے چینی مطالبہ ، محدود فوجی کارروائی پر خاموشی

ہندوستانی صحافیوں کا دورۂ چین ،جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ ،سفارتی ذرائع استعمال کرنے کانگریس کا مشورہ

بیجنگ ؍ ہوائیرو ۔7 اگسٹ ۔ ( سیاست ڈاٹ کام ) چین نے ہندوستانی فوجیوں کی ڈوکلام سے اندرون دو ہفتہ تخلیہ کی بات کہی ہے لیکن اُس نے محدود پیمانے پر ڈوکلام میں اپنی فوجی کارروائی کے بارے میں گہری خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ اطلاعات کے بموجب وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کے بیانات کے بموجب چین نے چھوٹے پیمانے پر ڈوکلام میں فوجی کارروائی کی ہے ۔ دریں اثناء جمشیدپور سے موصولہ اطلاع کے بموجب کانگریس کے ترجمان اجئے کمار نے کہاکہ ہندوستان کو سرحد پر اور بین الاقوامی سرحد پر امن برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کے چین ڈوکلام سے اپنی فوج کا تخلیہ کردیتا ہے، سفارتی ذرائع استعمال کرنا چاہئے ۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ہند اپنے دوستوں سے اس سلسلے میں مدد بھی حاصل کرسکتی ہے۔ کیونکہ اگر ہم ڈوکلام ہار جائیں تو اس بات کا امکان ہے کہ ہم چین کے ہاتھوں شمال مشرقی ہند کی تمام ریاستوں میں شکست کھاجائیں گے ۔ قبل ازیں چین کی پیپلز لبریشن آرمی ( پی ایل اے) کے سینئر کرنل لی لی اگرچہ ڈوکلام سے ہزاروں کیلومیٹر دور ہیں لیکن انھوں نے ہندوستان کو یہ سخت پیغام دیا ہے کہ ’’تصادم سے گریز کے لئے ہندوستانی فوج چینی علاقہ کا تخلیہ کرے ‘‘ ۔ چینی حکومت کی طرف سے اسپانسر کردہ ہندوستانی صحافیوں کا ایک دورہ آج چینی فوج کی طرف سے پروپگنڈہ مہم میں تبدیل ہوگیا ۔ جس کے تحت اُس ( چینی فوج ) نے سکم کے قریب ڈوکلام میں ان دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان طویل عرصہ سے جاری تعطل پر یہ سخت پیغام دیا۔ سینئر کرنل لی نے دعویٰ کیا کہ ’’ہندوستانی سپاہیوں نے جو کیا ہے وہ دراصل چینی علاقہ پر قبضہ ہے ‘‘ ۔ انھوں نے بیجنگ کے مضافات میں ایک فوجی چھاؤنی کا ہندوستانی صحافیوں کو دورہ کرواتے ہوئے کہا کہ ’’چینی سپاہی جو سمجھتے ہیں آپ اس کے بارے میں خبر جاری کرسکتے ہیں۔ میں ایک سپاہی ہوں ۔ میں اپنی علاقائی یکجہتی و سالمیت کیلئے ممکنہ بہتر مساعی کروں گا ۔ یہ ہمارا عزم و عہد ہے‘‘ ۔ اس دورہ میں ہندوستانی میڈیا کے روبرو پی ایل اے کی جنگی صلاحیتوں کامنفرد مظاہرہ بھی شامل تھا ۔ چینی فوج نے چھوٹے اسلحہ سے نشانہ بازی ، دشمن فورسیس کو پکڑنے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیا۔ دوبدو لڑائی ، انسداد دہشت گردی کی جنگی کارروائیوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا ۔ تاہم کرنل لی نے یہ وضاحت بھی کردی کہ ڈوکلام کے مخصوص حوالہ سے یہ مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے ۔ ڈوکلام میں ہندوستان کے 48 سپاہی ایک بلڈوزر کے ساتھ بدستور موجود ہیں۔ چینی وزارت خارجہ نے قبل ازیں کہا تھا کہ ’’سرحد کی ہندوستانی جانب اور سرحد کے اطراف ہندوستانی مسلح فوج کی کثیرتعداد جمع ہوچکی ہے ‘‘ ۔ ڈوکلام میں جاری تعطل پر مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کرنل لی نے کہاکہ ’’پی ایل اے کی کارروائی ہندوستان کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات پر منحصر ہوگی ۔ جب بھی ضروری ہوگا ہم مناسب کارروائی کریں گے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم سی پی سی (حکمراں چینی کمیونسٹ پارٹی ) اور مرکزی فوجی کمیشن کے احکام پر عمل کریں گے ‘‘ ۔ چین کا مرکزی فوجی کمیشن صدر ژی جنگ پنگ کی قیادت میں اس ملک کی 23 لاکھ طاقتور فوج کی اعلیٰ کمان ہوتا ہے ۔ بیجنگ میں واقع یہ فوجی چھاؤنی پی ایل اے افسروں اور سپاہیوں کا ایک قدیم ترین اور انتہائی اہم ترین مراکز میں شمار کی جاتی ہے ۔ چینی دارالحکومت کی سکیورٹی بھی اس فوجی چھاؤنی کی ذمہ داری ہے جہاں 11000 سپاہی تعینات ہیں۔ اس دوران چینی سرکاری میڈیا میں ہندوستان کے خلاف مہم جاری ہے ۔ سرکاری روزنامہ چائنا ڈیلی نے آج لکھا کہ ہندوستان کی ’’دراندازی‘‘ کے پس پردہ ’’جغرافیائی حکمت عملی ‘‘ کے غلط اندازہ اصل وجہ ہیں۔ اس اخبار نے مزید لکھا کہ ’’ہندوستانی فوج کی دراندازی چین کیلئے غیرمتوقع تھی اور یہ ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ سرحد کے ایک ایسے حصہ میں کی گئی ہے جس کو دونوں ملک کسی تنازعہ سے بالاتر تصور کرتے ہیں۔ ہند اور چین کے درمیان دشوارگذار مذاکرات کے بعد اس کی حد بندی کی گئی تھی ‘‘ ۔ چائنا ڈیلی نے لکھا کہ ہندوستان کی دراندازی دراصل چین کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے اور چین کو اپنے علاقہ کی دفاع کیلئے ہر ضروری قدم اُٹھانے کا حق ہے ۔ ’’پڑوسیوں کے درمیان غلط فہمیاں اگرچہ ناقابل فہم ہیں ۔ ہندوستان کو لاقانیت کی اشتعال انگیزیوں میں نہیں بلکہ مذاکرات میں مصروف ہونا چاہئے ‘‘۔