ڈونالڈ ٹرمپ : امریکہ کا حقیقی چہرہ !

ایران نے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا حقیقی چہرہ قرار دیا ہے۔ امریکی پالیسیوں کو کل تک درپردہ یا خفیہ طریقہ سے روبہ عمل لایا جاتا تھا، اب ٹرمپ نے علانیہ طور پر ان پالیسیوں پر عمل کرنا شروع کردیا ہے۔ ٹرمپ کے حوالے سے ساری دنیا میں پیدا ہونے والے مختلف سوالات میں اس وقت سب سے زیادہ نازک مسئلہ شام، یمن کا ہے۔ شام میں پناہ گزینوں کی صورتحال ایک سنگین کیفیت پیدا کردی ہے تو یمن میں امریکی بمباری سے اب تک ہوتے آرہی تباہیوں اور انسانی جانوں کے اتلاف پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔ سابق صدر بارک اوباما کی زیرقیادت امریکی فوج نے کسی بھی بڑی جنگ کی قیادت کرنے سے گریز کیا تھا، لیکن اس نے دیگر طریقوں سے کئی ایک چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کو اُکسانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اوباما کی قیادت میں جنگوں یا لڑائیوں کا تصور ہی تبدیل ہوگیا تھا۔ شام میں جنگ جیسی صورتحال کے باوجود اوباما نظم و نسق نے اسے سنگین حالات کے طور پر ظاہر نہیں کیا ۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کی مظلومیت کو بھی اوباما نظم و نسق اور اس کی فوجی طاقت نے ان لڑآئیوں کو بڑی جنگ قرار دینے سے گریز کیا لیکن اب حالات پہلے کی طرح نہیں رہیں گے۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی سیاسی لاشعوری کے ذریعہ تجارتی شعور کے غلط اندازوں کے ساتھ صرف چنندہ ملکوں کو نشانہ بنانے کی پالیسیوں کو اختیار کرلیا تو یوں سمجھئے کہ آنے والے دنوں میں ٹرمپ نظم و نسق ساری دنیا میں جنگوؤں کے نئے محاذ کھول دینے کا موجب بنے گا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ کا اب تک مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا، پھر ڈونالڈ ٹرمپ کونسی جنگ لڑیں گے، برسوں سے یمن کو اس نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نشانہ بنائے جانے اور عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے انسانی جانوں کی تباہی کا ذمہ دار ہونے کے باوجود امریکہ کو عالمی سطح پر سوپر پاور ملک کا درجہ ہی دیا جاتا رہا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران کی طاقت نے ہمیشہ امریکہ کے منصوبوں کو للکارا ہے، مگر صرف ایران ہی کو امریکہ کے نشانہ پر رکھا گیا جبکہ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ لب کشائی سے گریز کرتا رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی فہرست میں جن 7 مسلم ممالک شامل ہیں۔ ان ملکوں کے خلاف سابق میں بھی امریکی صدور کے نظم و نسق نے کارروائیاں کی ہیں لیکن اس مرتبہ ٹرمپ کی کارروائیوں کو اس لئے اہمیت حاصل ہوئی کیوں کہ ٹرمپ نے علانیہ طور پر اپنے انتخابی اعلانات کو بروئے کار لایا۔ یمن، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ ان ملکوں کے منجملہ پانچ ممالک میں جن کے خلاف سابق اوباما نظم و نسق نے کارروائی کی ہے، 2016ء میں ان ملکوں پر 26,171 بم برسائے گئے تھے۔ اس کارروائی میں اور اب ٹرمپ کے اقدام میں فرق صرف یہ ہے کہ اوباما نظم و نسق نے ان ملکوں کے شہریوں کو انہی کی سرزمین پر نشانہ بنایا تھا جبکہ ٹرمپ نے ان ملکوں کے شہریوں کو اپنے ایرپورٹس کے دروازے بند کردینے کی کوشش کی تھی۔ ان کے غلط فیصلوں یا یکطرفہ ایگزیکٹیو آرڈرس جاری کرنے سے ساری دنیا کی نظروں میں ایک بدنام صدر کے طور پر ابھرے ہیں۔ سابق صدور نے ٹھنڈے دماغ سے امریکہ کی سخت پالیسیوں کو ایک خفیہ مشن کے طور پر انجام دیا جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ گرم دماغ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تلخ فیصلے کررہے ہیں اور اس فرق نے آج امریکہ کے حقیقی چہرہ کو دنیا بھر میں عیاں کرنا شروع کیا ہے، امریکہ کی پالیسیاں اندرون ملک اور بیرون ملک مختلف ہوتی ہیں۔ شام کی صورتحال کے پیش نظر ٹرمپ کا یہ اعلان کہ وہ شام میں ایک محفوظ زون قائم کرنا چاہتے ہیں، ایک طرح سے وہ شام کے پناہ گزینوں کو دوسرے ملکوں کی سرحدیں عبور کرنے سے روکنا چاہتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آیا ایک سوپر پاور ملک کے نئے صدر کا مجوزہ محفوظ زون واقعی قائم ہوسکے گا؟اس پر ٹرمپ کے ہم خیال صدر روس پوٹن کا موقف کیا ہوگا، یہ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔