ڈونالڈ ٹرمپ اقتدار کے 100 دن

آنکھ جھپکی تھی دمِ صبح کہ وہ آپہونچے
کس برے وقت چراغوں نے جگایا مجھ کو
ڈونالڈ ٹرمپ اقتدار کے 100 دن
صدر امریکہ کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ کے ابتدائی 100 دن کی کارکردگی تنقیدوں اور ناکام پالیسیوں سے دوچار دیکھی گئی ہے جبکہ ٹرمپ نے 100 دن کی کارکردگی کو امریکی تاریخ کا شاندار باب قرار دیا۔ اصل میں ان کے نئے قوانین بنانے کی کوشش کو امریکی عدالتوں نے مسترد کردیا۔ امریکی معیشت کو نئی سمت دینے کی کوشش بھی جھکولے کھا چکی ہے۔ امریکہ میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر کا عہد کرنے کے علاوہ ٹرمپ نے دستخطی مہم چلانے کا بھی عہد کیا تھا۔ وہ اوباما ہلت کیر کے مقابل ایک نئی ہلت پالیسی لانے اور اصلاحات کا قدم اٹھانے کی بھی کوشش کرتے رہے۔ عدالتوں نے کئی مسلم ملکوں سے آنے والے شہریوں پر عائد کردہ سفری پابندی کو بھی کالعدم قرار دیا۔ وہ اس سلسلہ میں اخلاقی محاذ پر بری طرح پشیمانی کا شکار دکھائی دیئے۔ شام میں کیمیائی حملوں کے خلاف امریکی بمباری کے ذریعہ انہوں نے شامی پناہ گزینوں کو واپس بھیج دینے سے ہونے والی تنقیدوں کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ انتخابات کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی انتخابی ٹیم کی روس سے خفیہ رابطہ کاری کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں کے دباؤ میں کام کرنے والا ٹرمپ نظم و نسق امریکی عوام کیلئے ایک بہتر حکمرانی فراہم کرنے کیلئے ہاتھ پیر کو حرکت دینا نظر تو آرہا ہے مگر اس کو عوام کی اکثریت نے ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ابھی قبول نہیں کیا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کے ایک بزنس مین کی حیثیت سے اپنی بہترین شناخت بنائی تھی وہ تجارت کے میدان میں ایک غیرلالچی فرد کی حیثیت سے مشہور تھے لیکن اقتدار کی لالچ نے انہیں امریکی عوام کے حق میں کم اور اپنی بقا کی تائید میں اقدام کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ ان کی باتوں پر اب تقریباً لوگ یقین نہیں کررہے ہیں۔ ٹرمپ کو اپنے متعدد انتخابی وعدے پورے کرنے ہیں لیکن اب تک انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات، شمالی کوریا سے نیوکلیئر مسئلہ پر مذاکرات کی کوشش کے ذریعہ وہ یہ تو ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کہیں بھی کوئی سست روی کاکام نہیں کیا۔ ہندوستانی آئی ٹی پروفیشنلس اور آئی ٹی کمپنیوں کا امریکہ میں روزگار کو دھکہ لگانے والے H-1B ویزا پروگرام میں تبدیلی لائی گئی اس سے ایشیاء میں امریکہ کی پالیسی مجہول بنتی جارہی ہے۔ اگرچیکہ حکومت ہند نے ٹرمپ نظم و نسق کو H-1B ویزا پروگرام کے بارے میں حقیقت سے واقف کرانے کا ادعا کیا ہے لیکن ٹرمپ کے نئے اگزیکیٹیو آرڈر کو واپس نہیں لیا گیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے وہ زائد از چار درجن مرتبہ میڈیا کو طلب کرکے ان کے سامنے اپنے اگزیکیٹیو آرڈرس پر دستخط کرنے کا شو کیس مظاہرہ کیا۔ یہ صدارتی تجاویز میڈیا کی نظر میں مضحکہ خیز بنتی گئی۔ میڈیا کے تبصروں سے ناراض ٹرمپ نے بسااوقات میڈیا پر تنقیدیں کرتے دکھائی دیئے۔ سابق امریکی صدور نے اپنے اگزیکیٹیو آرڈرس کو جاری کرنے کیلئے اس طرح کا میڈیا کے سامنے مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ ان کی خارجہ پالیسی خاص کر ایشیاء کے بارے میں ان کا کم سیاسی تجربہ اور چین کے صدر ژی جن پنگ کی مداح سرائی نے ایشیاء کے دیگر ملکوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آیا امریکہ اب اپنے دیرینہ علاقائی توازن کو دھکہ پہنچایا جائے گا۔ انتخابی مہم کے دوران چین کو تنقید کا نشانہ بنانے والے ٹرمپ نے اچانک اقتدار کے فوری بعد صدر چین سے ملاقات کے دوران یہ کہہ کر مطمئن کرانے کی کوشش کی تھی کہ انہیں چین کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے میں دیر ہوتی ہے۔ ان کے کہنے اور سمجھنے میں جو فرق دیکھا گیا اس نتیجہ میں ایشیائی ملکوں میں امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری یا پیچیدگیوں کا اندیشہ پیدا ہونے لگا ہے۔ چین سے قربت کے بعد جاپان، تائیوان کو زیادہ فکرمند ہوتا دیکھا گیا لیکن یہاں چین کے معاملہ میں خود ٹرمپ کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوگاکہ چین کا موقف کب اور کس وقت تبدیل ہوتا ہے۔ چین اس ہفتہ جو خارجہ پالیسی رکھتا ہے اس تعلق سے دوسرے ہفتہ میں اس کا موقف کیا ہوگا یہ ناقابل قیاس ہوتا ہے۔ شمالی کوریا کیلئے صدر ٹرمپ کی پالیسی ابتداء میں حسب معمول امریکی صدور کے مطابق سخت دکھائی دی مگر جب سے شمالی کوریا نے سلسلہ وار فوجی طاقت کے مظاہرے شروع کئے ہیںاور اپنے نیوکلیئر اور میزائیل پروگراموں کو وسعت دی ہے، امریکہ نے اس خطہ میں بظاہر جنگی جہاز روانہ کئے لیکن نیوکلیئر طاقت کے حامل شمالی کوریا سے مذاکرات کو ترجیح دینے کا مطلب وہ اس جزائر کوریا کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے نظریہ کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔ ان کی 100 دن کی حکمرانی کی کارکردگی پر اب شمالی کوریا کی کیل ٹھونسی جارہی ہے تو آئندہ دنوں میں امریکہ کو اگر شمالی کوریا سے جنگ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو کیا ہوگا، یہ وقت ہی بتائے گا۔
ٹی آر ایس کایوم تاسیس
تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے قیام کے 16 سال پورا ہونا ایک سن بلوغ کو پہنچنے کی علامت ہے۔ 2001ء میں جس مقصد کے ساتھ پارٹی کا قیام عمل میں لاتے ہوئے پارٹی سربراہ کے چندرشیکھر راؤ نے تحریک شروع کی تھی آج وہ اس تحریک کے ثمرات سے مکمل طور پر استفادہ کررہے ہیں۔ حال میں منعقدہ پارٹی پلینری سیشن اور ورنگل کا جلسہ عام پارٹی کو سال 2019ء کیلئے مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔ نئی ریاست کو سنہرا تلنگانہ بنانے کا خواب سجا چکے کے سی آر کو اس سمت میں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے 16 ویں یوم تاسیس کے موقع پر اس عہد کا اعادہ تو کیا ہے اور اپنے آخری قطرہ خون تک تلنگانہ عوام کی بہبود کیلئے کام کرتے رہیں گے۔ 15 لاکھ کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کے سی آر نے آئندہ کے عزائم کا جس جذبہ و استقلال کے ساتھ اظہار کررہے تھے اس سے اندازہ ہوتا ہیکہ انہوں نے 2019ء کے انتخابات کیلئے اپنی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ سنہرے تلنگانہ کے حصول کیلئے 2019ء کے انتخابات میں ٹی آر ایس کی کامیابی کو یقینی بنانا ان کا اور ان کی ٹیم کی اولین کوشش ہوگی۔ بلاشبہ کے چندرشیکھر راؤ نے مختصر وقفہ میں اپنی جانب سے بھرپور کوشش کے ذریعہ پارٹی کو مستحکم کیا ہے ۔ پارٹی کی رکنیت سازی مہم کے ذریعہ لاکھوں افراد کو پارٹی کارکن بنایا گیا۔ ٹی آر ایس کی جانب سے عوام کی دلچسپی اور اس کے استحکام کیلئے عوام کی حمایت ہی کافی ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے جس طرح کوشش کرتے نظر آرہے ہیں اگر ان کوششوں کے ثمرات پارٹی کے رائے دہندوں کو بروقت ملتے ہیں تو پارٹی کا استحکام و وسعت یقینی ہے۔ 12 فیصد مسلم تحفظات کیلئے اسمبلی سے بل کی منظوری بہترین کوشش ثابت ہوئی۔ اب مرکز سے اسے منظوری حاصل کرنا ان کی کوششوں پر منحصر ہے۔