حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
انہیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ
چین میں مسلمانوں پر مظالم
چین میں مسلمانوں کے خلاف شدید کاروائیاں ان اسلام دشمن پالیسیوں کا حصہ ہیں جو اس وقت ساری دنیا میں روبہ عمل لائی جارہی ہیں، مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لئے جب سرکاری سطح پر ہی زیادتیاں ہونے لگتی ہیں تو یہ مسلمانوں کیلئے کڑی آزمائش سے کم نہیں ۔ ماینمار میں جب سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کا صفایا کرنے کی مہم چلائی گئی تو اس کے دردناک واقعات سے ساری دنیا لرز اُٹھی تھی لیکن انسانی حقوق کی دہائی دینے والوں نے صرف آہ بھرکر خاموشی اختیار کرلی ۔ اس طرح چین میں جاری مخالف مسلم کارروائیوں اور زیادتیوں پر بھی انسانی حقوق کے ادارے آہ کا دم بھرکر چپ ہورہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جہاں کہیں مذہب کی اساس پر انسانوں کونشانہ بنایا جاتا ہے تو انسانی حقوق کے علمبردار پوری شدت کے ساتھ ڈھال بن کر ان انسانوں کی حفاظت کریں لیکن ایسی ہمت و جرأت کامظاہرہ آج تک مسلمانوں کے حق میں ہرگز نہیں کیا گیا۔ چین کے دوردراز والے علاقوں میں مقیم مسلمانوں پر ظلم و زیادتیاں ہورہی ہیں ۔ چین کے مغربی خطہ سنکیانگ میں شدید ترین کارروائیوں کی اطلاعات افسوسناک ہیں۔ اس علاقہ سے تقریباً ایک ملین مسلمانوں کے غائب ہوجانے کی خبروں نے باقی دنیا کے مسلمانوں خاص کر انسانی دل رکھنے والوں کو مضطرب کردیا ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جو رپورٹ جاری کی ہے وہ تکلیف دہ ہے اور چین میں مسلمانوں کی صورتحال کی سنگینی کو عیاں کرتی ہے ۔ چین نے مسلم اقلیت پر کئی پابندیاں لگادی ہیں ، انھیں ان کے مذہب سے دور کرنے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے ۔ مساجد بند کردیئے جانے ، لاوڈ اسپیکر پر اذان کو ممنوع قرار دینے اور دیگر واقعات کے ذریعہ مسلمانوں کو ہرقدم پر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جارہا ہے آخر ایک ملک اور اس کی حکومت اپنے ہی شہریوں کے ایک حصہ کو ظلم و زیادتی کا شکار بناتی ہے تو یہ حکمرانی کے فرائض اور انسانی اقدار کی پامالی کا بدترین واقعہ کہلاتا ہے ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہراس و خوف زدہ کرنے کا ایک ہی حربہ اختیار کیا گیا ہے کہ ان کے کسی ایک گروپ کو دہشت گردی سے جوڑدیا جائے چند مسلمانوں کو دہشت گرد گروپوں سے وابستہ ہونے کے الزام کے ساتھ اُنھیں ماخوذ کرکے ماباقی تمام مسلمانوں کو اسلامی انتہاپسندی کے شک کے دائرے میں لاکھڑا کیا جائے تاکہ وہ اپنے شہری حقوق کے حصول کا مطالبہ نہ کرسکیں اور ایک عام شہری کی طرح زندگی گذارنے کے حق سے محروم ہوجائیں ۔ یہ حقیقت نہایت ہی تکلیف دہ ہے کہ حکومتوں کی سرپرستی میں مظالم کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ کسی اور ملک میں اقلیتیں دیگر اکثریتی گروپ کا شکار ہوتے ہیں ان پر قابو پانے کیلئے حکومت اور سرکاری مشنری حرکت میں آجاتی ہے لیکن جب حکومت ہی اقلیت کو تباہ کرنے والی کارروائیاں کرتی ہے تو پھر ان بے بس مسلمانوں کا پرساں حال کوئی نہیں ہوگا ۔ عالمی اداروں نے چین کے مسلمانوں کی کیفیت کا نوٹ نہیں لیا تو اس ملک سے مسلمانوں کے صفایا کی بدترین کارروائیوں میں اضافہ ہوگا ۔ حکومت چین کو بھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر اس نے انتہاپسندانہ سرگرمیوں کے بہانے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو نقصان پہونچانے کی کوشش کی تو اس سے حکومت اور ملک کے خلاف ناراضگی میں اضافہ ہوگا جیسا کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کی نگہبانی کرنے والے اداروں کا احساس ہے کہ جہاں کہیں جب زیادتی بڑھ جاتی ہے تو حکومت اور مملکت کے خلاف ناراضگیوں میں اضافہ ہوتا ہے او ریہ ناراضگیاں کسی بھی طرح امن و امان کے لئے ٹھیک نہیں ہوتیں۔ چین کے مسلمانوں کو سرکاری کیمپوں میں محروس کردیا جانا ان پر کڑی نظر رکھ کر سیاسی نظریہ سازی کے ساتھ جبراً ثقافتی سوچ مسلط کرنا ایک غیرانسانی اور غیراصولی عمل ہے ۔ چین کے مسلمانوں پر اس لئے بھی ظلم و زیادتی کی جاتی ہے کہ یہ لوگ شریعت کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ داڑھی رکھتے ہیں ، برقعہ پہنتے ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں یہ تمام چیزیں ایک مذہب کے ماننے والوں کی آزادی کے تقاضہ کو پورا کرنے سے روکتے ہیں تو پھر چین کو اس دنیا کے قوانین کے خلاف کارروائی کرنے پر عالمی اداروں کو فوری اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔ مسلم سربراہوں کو بھی اس مسئلہ کا فوری جائزہ لے کر چین کی قیادت سے جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے ۔