چیف منسٹر اے پی چندرا بابو کا حقیقی چہرہ بے نقاب

کابینہ میں مسلم نمائندگی نظر انداز ، محمد علی شبیر کا شدید ردعمل
حیدرآباد۔3 اپریل (سیاست نیوز) تلنگانہ قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے کہا کہ چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو بی جے پی کے بھگوا رنگ میں رنگ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آندھراپردیش کے مسلمانوں سے زبانی ہمدردی کا اظہار کرنے والے نائیڈو کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ آندھراپردیش کی کابینہ میں مسلم نمائندگی نہ دیئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے کہا کہ بی جے پی سے دوستی نے نائیڈو کو سنگ پریوار کے راستے پر گامزن کردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 11 نئے وزراء نے ایک بھی مسلمان کو شامل نہ کرنا سراسر مسلم دشمنی ہے اور یہ نائیڈو کے سابق میں دیئے گئے ان بیانات کی بھی نفی کرتی ہے جس میں انہوں نے بی جے پی کے ساتھ دوستی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد سے نائیڈو کھلے عام بی جے پی کے ساتھ ہوچکے ہیں اور انہوں نے ترقی کے نام پر وزیراعظم نریندر مودی کے ہر مخالف عوام فیصلے کی تائید کی۔ نوٹ بندی کے اعلان کے بعد نائیڈو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ مرکز میں ان کے مشورے پر کیا گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کی حلف برداری تقریب میں چندرا بابو نائیڈو کی شرکت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ 2019ء میں آندھراپردیش میں بی جے پی نائیڈو کے تعاون سے ایک بڑی طاقت بن کر ابھرے گی۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ آندھراپردیش کے مسلمان نائیڈو کو آئندہ انتخابات میں یقینی طور پر سبق سکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ابتداء میں نائیڈو کے پاس یہ عذر تھا کہ پارٹی میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی یا کونسل نہیں ہے۔ نائیڈو نے ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے منتخب ہونے والے 4 مسلم ارکان اسمبلی میں سے دو کو انحراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پارٹی میں شامل کرلیا گیا۔ اس کے علاوہ سینئر قائد احمد شریف گزشتہ دو سال سے قانون ساز کونسل کے رکن ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو چاہتے تو تین ارکان مقننہ میں سے کسی ایک کو کابینہ میں شامل کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے بی جے پی کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو پھر ایک بار نظرانداز کردیا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ جب سے آندھراپردیش میں چندرا بابو نائیڈو برسر اقتدار آئے ہیں وہ مسلمانوں کے مفادات کے خلاف فیصلے کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے انحراف کرنے والے چار ارکان اسمبلی کو کابینہ میں شامل کرتے ہوئے نائیڈو نے تلنگانہ کے چیف منسٹر چندرشیکھر رائو کی تقلید کی ہے۔ دیگر جماعتوں سے انحراف کی حوصلہ افزائی کرنے میں دونوں چیف منسٹرس کا کوئی ثانی نہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں ٹی آر ایس کو واضح اکثریت حاصل نہیں تھی لیکن کے سی آر نے کانگریس، تلگودیشم، وائی ایس آر کانگریس اور سی پی آئی کے ارکان کو مختلف انداز میں لالچ دے کر انحراف کے لیے اکسایا اور اسمبلی میں حکومت کی اکثریت میں اضافہ کیا۔ ٹھیک اسی طرح چندرا بابو نائیڈو نے بھی وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ارکان اسمبلی کو تلگودیشم میں شامل کیا ہے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ سیاسی طور پر منحرف قائدین کو کابینہ میں شامل کرنا جمہوری روایات کے خلاف ہے۔