سید عبید اﷲ ہاشمی
۱۳۱۱ھ تا ۱۳۶۸ ھ۔ ۱۸۹۱ ء تا ۱۹۴۸ء
کائنات کی ساری کامیابیاں علم وُ عمل میں ہیں ۔ لیکن ساری سعادتیں دینی علم اور عمل صالح میں ہیں۔ انسانی افراد کی کردار کے اعتبارسے تین حیثیتیں ہیں {۱} وہ جن کی حیثیت غذا جیسی {۲} وہ جن کی حیثیت دوا جیسی {۳} وہ جو بیماری جیسی کیفیت رکھتے ہیں۔ جس طرح غذا ہر انسان کے لئے ہر روز ضروری ہے اسی طرح غذا جیسی حیثیت والے افراد سے ربط ضروری ہے تاکہ باعزت اور کامیاب زندگی قائم ہو۔ دوا جیسی حیثیت والے افراد سے واقفیت ضرور ی ہے تاکہ بوقت ضرورت مستفید ہوسکے۔ بیماری جیسی حیثیت والوں سے احتیاط ہر دم ضروری ہے۔ الحاج عبدالحق صاحب بانی دارالعلوم عربیہ کا شمار غذا جیسی حیثیت والے افرادمیں ہوتا ہے۔ آپ کسی جامعہ کے مستند عالم نہ تھے مگر علم اور اہل علم سے محبت رکھتے تھے۔ اردو ، فارسی اور عربی علوم اسلامیہ کی تحصیل مولوی شیخ پہلوان صاحب نصراﷲ آبادی اور مولنا گل محمد صاحب فاضل سے حاصل کئے۔ تلگو زبان بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ نیز پیر طریقت حافظ عبدالہادی ملباری واعظ سرکار عالی سے شرف بیعت بھی حاصل کئے۔ آپ کا ذریعہ معاش پارچہ کی تجارت تھا۔ صداقت و امانت والے مزاج کی وجہ سے خوب نام کمائے۔ تجارت میں سچائی اور امانت داری پر قیامت میں انبیاء و صلحاء کی معیت حاصل ہونے کی خوشخبری احادیث میں موجود ہے۔ آپ قصبۂ کاؤرم پیٹہ میں نماز باجماعت کی باضابطہ تحریک چلائے اور ہر فرد پر توجہ رکھتے اور تحریک کے ذریعہ روزنامچہ تیار کراتے۔ قدیم مسجد کی توسیع و جدید تعمیر کرائے۔ فصل خصومات آپسی نزاعات کے تصفیہ کا مؤثر قابل اعتماد نظام قائم کئے۔ وعظ و نصیحت کی مجلسیں سجاتے۔بے جا رسومات کا تدارک کئے۔ آریائی، نصرانی اور قادیانی سازشوں کو بے نقاب کرکے ان فتنوں سے اہل ایمان کی حفاظت کا بندوبست کئے۔ ضلع محبوبنگر کے غیر معروف قصبہ کاؤرم پیٹہ میں صباحیہ اور شبینہ دینی تعلیم کا ۱۹۲۳ ء میں آغاز کئے اس سے ہمت پاکر اطراف اور دور دراز اور دیگر ریاستوں تک وسعت دیتے ہوئے طلبہ کو فراہم کرکے ہمہ وقتی تعلیمی و تربیتی مرکز کو مع دار الاقامہ ۱۹۲۴ ء میں قائم فرمائے جو جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی بافیض نصابی شاخ ثابت ہوئی۔ اور یہاں کے فارغ طلبہ کی اعلی تعلیم کی تکمیل کیلئے جامعہ نظامیہ مکمل کفالت قبول کرلیتا ہے، جو اس ادارہ کے لئے بڑا اعزاز ہے۔ اور بے شمار حفاظ، قراء
اور دیگر فارغین ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس اور مساجد سے دینی علوم اور تربیت کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔ بانی دارالعلوم اپنے مدرسہ کے طلبہ کو صرف علوم سے آرستہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کے لئے ضامن روزگار ہنر کے بھی چند شعبے قائم کئے تھے۔ اور ملک سے محبت پیدا کرنے والی خدمات آبادی میں صفائی اور سماج میں امن، محبت اور انسانیت کے فروغ کے لئے دیگر اقوام سے انسانی بنیادوں پر روابط کے قیام کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ چھوٹے بیوپاریوں اور بے روزگاروں کواپنی دکان سے تجارتی مال دیتے رات میں حساب لیکر انکا محنتانہ دیدیتے جس سے کافی لوگ فائد اٹھاتے۔ مستقل گاہکوں سے ملّی و علاقائی ضروریات کے لئے بھی ایک فنڈ تشکیل دیئے۔ آبادی میں کسی اجنبی یا مسافر کی آمد پر مہمان نوازی کا اہتمام فرماتے۔ ملک و قوم کی خدمت و حفاظت کو باعث فخر سمجھتے۔
نوٹ: حضرت ممدوح علیہ الرحمہ کی سالانہ فاتحہ ۱۶/ صفر المظفر ۱۴۳۶ھ م ۱۲/ ڈسمبر بروز چہارشنبہ بعد نماز عصر قرآن خوانی، چادرگل اور بعد نماز عشاء سالانہ جلسۂ دستار بندی وخلعت مقرر ہے۔