مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر
اللہ سبحانہ و تعالی نے انبیاء کرام کو حسن اخلاق اور اعلی کردار کا جامع نمونہ بناکر مبعوث فرمایا، جن سے ساری انسانیت اخلاق و کردار کی رہنمائی حاصل کرتی رہی۔ ارشاد باری ہے: ’’یہ (انبیاء) وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہدایت دی تھی تو تم ان ہی کی ہدایت کی پیروی کرو‘‘ (سورۃ الانعام۔۹۱) ’’بے شک تمہارے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب میں عمدہ نمونہ ہے‘‘۔ (سورۃ الممتحنہ۔۴)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں، تاکہ دنیا میں عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘ (مشکوۃ المصابیح) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حمیدہ میں ظاہری اور معنوی محاسن پوشیدہ ہیں، اسی بناء پر ساری انسانیت کو بلاامتیاز رنگ و نسل آپﷺ کی اتباع اور پیروی کی تلقین کی گئی۔ ’’یقیناً تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ عمل موجود ہے‘‘ (سورۃ الاحزاب۔۲۱) بلکہ آپﷺ کی فرماں برداری عین اطاعت الہی قرار دی گئی اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے ، اتباع و پیروی کرنے والوں کو محبت اور بخشش کی نوید سنائی گئی۔ ’’اے نبی! آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا‘‘۔ (آل عمران۔۳۱)
حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ جنھوں نے آپﷺ کی آغوش رحمت میں تربیت پائی اور زمانہ نبوت کے ۲۳ برس اور اس سے پہلے کا زمانہ بھی دیکھا تھا، آپﷺ کے خلق عظیم کی بابت فرمایا کرتے تھے کہ ’’آپ خندہ جبیں، نرم خو اور طبعاً مہربان تھے۔ آپ سخت مزاج اور تنگ دل قطعاً نہ تھے۔ کوئی برا اور فحش لفظ زبان سے نہ نکالتے، کسی کی عیب جوئی بدگوئی نہ کرتے، جو آپ کو پسند نہ ہوتا اس سے منہ پھیر لیتے۔ آپﷺ نے اپنے نفس کو تین باتوں یعنی فضول جھگڑے، تکبر اور بے معنی گفتگو سے الگ رکھا تھا۔ دوسروں کی بابت آپ تین باتوں یعنی کسی کی مذمت کرنے، عیب گیری اور تجسس سے اجتناب فرماتے تھے اور وہی بات کہتے جو انجام کے اعتبار سے فائدہ مند ہوتی۔ لوگوں کے ساتھ ہنسنے اور تعجب کرنے میں شریک رہتے۔ مسافر اور اجنبی کی گفتگو اور سائل کے سوال کی درشتی کو نظرانداز کردیتے۔ آپﷺ کو صرف سچی تعریف پسند تھی، کسی بات کو درمیان میں کاٹنے سے گریز فرماتے‘‘ (ترمذی: شمائل۔ ۳۹۳،۳۹۴) مزید فرمایا ’’نہایت سخی، راست گو، نرم طبیعت اور خوش مزاج تھے۔ کوئی اگر اچانک دیکھتا تو مرعوب ہو جاتا، مگر جب وہ آپ سے معاملہ کرتا تو محبت کرنے لگ جاتا‘‘۔ (حوالہ مذکور)
ایک اور صحابی حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ’’آپ نرم طبیعت تھے، سخت گیر نہ تھے۔ کسی کی اہانت آپﷺ کو کبھی منظور نہ ہوتی، معمولی معمولی باتوں میں لوگوں کا شکریہ ادا کرتے، کسی چیز کو برا نہ کہتے، کھانا جیسا ہوتا کھا لیتے، کبھی آپ برا نہ کہتے۔ کبھی ذاتی معاملے میں غصہ نہ کرتے، البتہ اگر کوئی امر حق میں مخالفت کرتا تو غضبناک ہو جاتے‘‘۔ (ابن سعد۱: ۴۲۲،۴۲۳)
قرآن مجید میں آپﷺ کی نرمی، شفقت اور جمیل طرز معاشرت کی تعریف کرتے فرمایا گیا ’’پس اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ ان لوگوں کے لئے نرم ہو گئے اور اگر آپ ترش رو، سخت دل ہوتے تو سب لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے‘‘۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا کی شہادت کے مطابق آپ ہمیشہ غریبوں، محتاجوں اور بیکسوں کے ہمدرد، مسافروں کے بہی خواہ، بیواؤں اور ضعیفوں کے حامی و ناصر، بلکہ ان کو کماکر دینے والے رہے‘‘۔
حیات مبارکہ کے مکی اور مدنی دونوں ادوار میں وسائل و اسباب کی آپﷺ کے پاس کوئی کمی نہ تھی، مگر آپ کو فطری طورپر سادگی اور عوامیت پسند تھی۔ چنانچہ آپ کی زہد و قناعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ایک کھجور کی چٹائی (حصیر) پر آرام فرما رہے تھے اور جسم مبارک پر اس چٹائی کے نشانات بہت واضح دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس سے زیادہ نرم چیز آپ کے لئے بچھا دیا کریں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’مجھے بھلا دنیا سے کیا غرض؟ میری مثال تو اس مسافر جیسی ہے، جو کسی تپتی ہوئی دوپہر میں ذرا سی دیر سستانے کے لئے کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جائے اور پھر آرام کرکے چل دے‘‘۔ (ابن الجوزی، الوفا۲:۲۷۵)
آپﷺ کے اخلاق حمیدہ کا ایک عظیم پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں کسی بھی ذاتی دشمنی کا انتقام نہیں لیا۔ (الترمذی، شمائل)
ایک مرتبہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ (رئیس قبیلہ خزرج) سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور آپﷺ نے معمول کے مطابق تین مرتبہ جاکر بلند آواز سے سلام کیا اور واپس پلٹنے لگے۔ حضرت سعد جو دانستہ پست آواز میں جواب دیتے جارہے تھے، تاکہ آپﷺ کی ان کے حق میں یہ دعاء اور زیادہ ہو۔ پیچھے گئے اور عرض کیا ’’یارسول اللہ! آپ کیوں لوٹ رہے ہیں؟‘‘۔ فرمایا ’’تم نے تینوں مرتبہ سلام کا جواب نہیں دیا تھا، اس لئے واپس جا رہا ہوں‘‘۔ حضرت سعد نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! میں اس لئے آہستہ جواب دے رہا تھا، تاکہ آپ ہمارے حق میں اور دعاء مانگیں‘‘۔ آپﷺ نے یہ سنتے ہی فرمایا ’’اے اللہ! سعد بن عبادہ کے اہل و عیال پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما‘‘۔ واپسی پر انھوں نے سواری کے لئے آپﷺ کو گھوڑا پیش کیا اور خود پیدل چلنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’یا تو تم بھی سوار ہو جاؤ، ورنہ پھر پلٹ جاؤ‘‘۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے آپﷺ کے برابر بیٹھنا سوئے ادب خیال کیا اور واپس لوٹ گئے۔ (ابوداؤد،۵: ۳۷۲تا۳۷۴)
آپﷺ کی حیات طیبہ میں مثال دینے کے لئے کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہے، جس سے ثابت ہوتا ہو کہ آپ نے کسی موقع پر اپنے قول کی پاسداری نہیں فرمائی۔ جہاد میں آپﷺ دوسروں سے پیش پیش ہوتے۔ غزوہ خندق میں آپﷺ نے سب کے ساتھ مل کر خندق کھودی، مسجد نبوی کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر عملی طورپر حصہ لیا، اس کے علاوہ بھی ہر کام میں دوسروں سے سبقت دکھائی۔
وصال مبارک سے چند روز قبل آپﷺ نے مجمع عام میں اعلان فرمایا کہ ’’جس کسی کا مجھ پر کوئی حق ہو، یا وہ وصول کرے یا پھر معاف کردے‘‘۔ ایک شخص نے چند درہموں کا مطالبہ کیا، جو فوراً ادا کردیئے گئے۔
یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور پیغمبرانہ کردار کے چند روشن پہلو تھے۔ آپﷺ کی سیرت طیبہ کا ہر گوشہ اخلاق و کردار کا اعلی نمونہ ہے۔