پہلی بار مسلم امیدواروں میں سے دیانتدار کا انتخاب کرسکتے ہیں

150 میں سے تقریبا نصف حلقوں میں بے شمار مسلم امیدوار ، حیدرآباد ، رنگاریڈی اور میدک تک جی ایچ ایم سی وارڈس
حیدرآباد ۔ 28 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز) : جی ایچ ایم سی انتخابات میں جملہ 24 اسمبلی حلقوں کے رائے دہندے اپنے حق رائے دہی کا 150 بلدی وارڈس میں استعمال کریں گے ۔ حکمران ٹی آر ایس ، کانگریس ، تلگو دیشم ، بی جے پی اتحاد ، مجلس ، مجلس بچاؤ تحریک کے قائدین پارٹی امیدواروں کو کامیاب بنانے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ کانگریس کی انتخابی مہم میں قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر سرگرم حصہ لے رہے ہیں ۔ غلام نبی آزاد اور ڈگ وجئے سنگھ جیسے قائدین کے انتخابی مہم میں حصہ لینے کے امکانات ہیں ۔ جہاں تک 150 ڈیویژنوں میں مسلم امیدواروں کا سوال ہے ان میں سے نصف ڈیویژن میں ایک سے زائد مسلم امیدوار مقابلہ کررہے ہیں ۔ خاص طور پر پرانا شہر کے بیشتر حلقوں میں مسلم امیدواروں کی کثیر تعداد مقابلہ کررہی ہے ۔ گھانسی بازار ، شاہ علی بنڈہ ، اکبر باغ ، اعظم پورہ ، دودھ باولی ، بھولکپور ، ایرگڈہ ، دبیر پورہ ، پتھر گٹی ان بلدی حلقوں میں شامل ہیں جہاں مسلم امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جب کہ پرانا پل میں کانگریس امیدوار محمد غوث کا مقابلہ مجلس کے ہندو امیدوار سے ہے ۔ اس کے باوجود اس حلقہ کے دیگر مسلم امیدوار ، کسی بھی امیدوار کی کامیابی میں فیصلہ کن رول ادا کرسکتے ہیں ۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں کانگریس تقریبا 25 ، ٹی آر ایس نے تقریبا 20 ، تلگو دیشم ۔ بی جے پی اتحاد نے تقریبا 6 مسلمانوں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے جب کہ مجلس کے زیادہ تر امیدوار مسلمان ہیں ۔ حلقہ پارلیمان حیدرآباد اور سکندرآباد کے ایسے بلدی ڈیویژن جہاں مسلم امیدوار طاقتور موقف رکھتے ہیں وہاں کے عوام کو رائے دہی میں حصہ لینے سے قبل ہی یہ فیصلہ کرلیں کہ ان کے بلدی حلقہ کے لیے کونسا امیدوار مناسب ہوگا ۔ اس سلسلہ میں امیدوار کے کردار ، اس کی دیانت داری ، جذبہ خدمت خلق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ یہ دیکھنا بھی ہوگا کہ کہیں آپ کے حلقہ میں کوئی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا امیدوار لینڈ گرابر اور سود خور تو کامیاب نہیں ہورہا ہے کیوں کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے امیدوار دولت کے بل بوتے پر کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا مطلب عوام کو 5 برسوں تک انہیں برداشت کرنا پڑے گا ۔ الیکشن واچ گروپ کی ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں بتایا گیا کہ مقابلہ میں موجود 1333 امیدواروں میں کم از کم 80 مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں ان امیدواروں کے خلاف قتل ، اغواء ، رقم کی جبری وصولی ، فرقہ وارانہ فسادات ، چوری ، سرکاری ملازمین پر حملوں ، گھریلو تشدد اور خمار بازی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں ۔ اس طرح کے سنگین الزامات کا سامنا کرنے کے باوجود ایسے مجرمانہ پس منظر رکھنے والوں کو سیاسی جماعتوں نے ٹکٹس دئیے ہے ۔ جہاں تک مسلم اکثریتی وارڈس کا سوال ہے وہاں سڑکوں کی بار بار کھدائی روز کا معمول ہے ۔ بستیوں میں صفائی کا معقول انتظام نہیں رہتا ۔ جابجا کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں اور فضاء میں تعفن پھیلا ہوتا ہے ۔ ان حالات میں ووٹ ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ وہ عوامی مسائل نظر انداز کرنے والوں کو سبق سکھا سکتے ہیں۔آپ کو بتادیں کہ جی ایچ ایم سی کے 150 بلدی ڈیویژنس حیدرآباد و سکندرآباد پارلیمانی حلقوں کے علاوہ ضلع رنگاریڈی اور میدک کے پٹن چیرو تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ جن میں پارلیمانی حلقہ حیدرآباد و سکندرآباد کے اسمبلی حلقہ مشیر آباد ، ملک پیٹ ، عنبر پیٹ ، خیریت آباد ، جوبلی ہلز ، صنعت نگر ، نامپلی ، کاروان ، گوشہ محل ، چارمینار ، چندرائن گٹہ ، یاقوت پورہ ، بہادر پورہ ، سکندرآباد ، سکندرآباد کنٹونمنٹ کے ساتھ ساتھ رنگاریڈی کے اسمبلی حلقہ ملکاجگری ، قطب اللہ پور ، کوکٹ پلی ، اوپل ، ایل بی نگر ، مہیشورم ، راجندر نگر ، سری لنگم پلی کے علاوہ میدک کا حلقہ پٹن چیرو بھی شامل ہیں۔۔